اسلامي فرقے اورتقيہ



یہی اهم اور مهم کا قانون کبھی تقيہ کو واجب قرار دیتا ہے اور کبھی حرام. روایات کي روشني میں بعض موارد ميں تقیہ کرنا حرام ہے ، درج ذیل ہیں:

۱. جہاں حق خطر ے میں پڑ جائے

جہاں اپنے عقیدے کو چھپانا مفاسد کا پرچار اور کفر اور بے ایمانی یا ظلم وجور میں اضافہ اور اسلامی ستونوں میں تزلزل اور لوگوں کا گمراہی اور شعائریا احکام اسلامی کا پامال ہو نے کا سبب بنے تو وہاں تقیہ کرنا حرام ہے . لہذا ایسے مواقع پر اگر ہم کہیں کہ تقیہ مباح ہے تو یہ بھی بہت بڑی غلطی ہوگی . اور اس قسم کا تقيہ « ويران گر تقيہ » کہلائے گا .پس وہ تقیہ مجاز یا واجب ہے جو مثبت اورمفيد ہو اور اہداف کے حصول کی راہ میں رکاوٹ کا سبب نہ ہو.

۲.جہاں خون خرابہ کا باعث ہو

جہان خون ریزی ہو اور بے گناہ لوگوں کی جان مال کو خطرہ ہو تو وہاں تقیہ کرنا حرام ہے . جیسا کہ اگر کوئی مجھ سے کہہ دے کہ اگر فلانی کو تم قتل نہ کرو تو تجھے قتل کروں گا. تو اس صورت میں مجھے حق نہیں پہنچتا کہ میں اس شخص کو قتل کروں . اگرچہ مجھے یقین ہوجائے کہ میری جان خطرے میں ہے .

ایسی صورت میں اگر کوئی کہہ دے کہ ہمارے پاس روایت ہےکہ (المأمور معذور ). لہذا اگر میں فلانی کو قتل کروں تو کوئی گناہ نہیں ہے .

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معروف جملہ «المامور معذور» سند کے لحاظ سے ضعیف ہے کیونکہ اس کی اصلی سند « شمر» تک پہنچتی ہے .(3 ) اسے کوئی عاقل اور شعور رکھنے والا قبول نہیں کرسکتا.کیونکہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنی جان بچانے کے خاطر کسی دوسرے بے گناہ کی جان لے لے . اور اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ قاتل ہوگا . چنانچه امام محمد باقر(ع) فرماتے ہیں : انّما جعل التقية ليحقن بہا الدم فاذا بلغ الدم فليس التقية(4 ) يعني تقيہ شریعت میں اس لئے جائز قرار دیا ہے کہ قومی اور انفرادی قدرت ہدر نہ جائے ، اپنے اور دوسروں کے خون محفوظ رہے . اور اگر خون ریزی شروع ہوجائے تو تقیه جائز نہیں ہے .

۳. وہ موارد جہاں واضح دليل موجود ہو

وہ موارد جہاں واضح طور پرعقلی اور منطقی دلائل موجود ہو،جیسے اسلام میں شراب نوشی کی ممانعت هے يهاں تقيہ کرکے شراب پينے کي اجازت نهيں هے .اور تقیہ حرام ہے یہاں عقیدہ چھپانے کے بجائے عقلی اور منطقی دلائل سے استدلال کریں .اور ایسا حال پیدا کریں کہ مد مقابل کو یقین ہوجائے کہ یہ حکم قطعی ہےاور اس کا اجراء کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے .لیکن کبھی بعض ڈرپوک اور بزدل لوگ جب شرابیوں کے محفلوں میں پہنچ جاتے ہیں تو وہ بجائے اعتراض کرنے کے ، ان کے ساتھ ہم پیالہ ہو جاتے ہیں . یا اگر نہیں پیتے ہیں تو کہتے ہیں کہ شراب میرے مزاج کیلئے مناسب نہیں ہے .لیکن یہ دونوں صورتوں میں مجرم اور خطاکار ہیں.یا صراحت کے ساتھ کهه ديں کہ ہم مسلمان ہیں اس لئے شراب نہیں پیتے .

اسی طرح اجتماعی ، معاشرتی اور سیاسی وظيفے کی انجام دہی کے موقع پر بھی دو ٹوک جواب دینا چاہئے .

۴. شارع اور متشرعين کے نزدیک زیادہ اہميت والے موارد

بعض واجبات اور محرمات جو شارع اور متشرعین کے نزدیک زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ، وہاں تقیہ جائز نہیں ہے .جیسے اگر کوئی خانہ کعبہ کی بے حرمتی یا انہدام کرنے کی کوشش کرے یا اسی طرح اور دینی مراکز جیسے مسجد ، ائمہ کے قبور کی بے حرمتی کرے تو وہان خاموش رہنا جرم ہے ، اسی طرح گناہان کبیرہ کے ارتکاب پر مجبور کرے تو بھی انکار کرنا چاہئے .

..............

(1 ). همان ، ص ۲۴.

(2 ). ہمان

(3 ). مكارم شيرازي؛ تقيہ مبارزه عميقتر،ص ۷۱.

(4 ) . شيخ اعظم انصاري؛ مكاسب، ج ۲، ص ۹۸.

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43