اسلامي فرقے اورتقيہ



کیا اگر پیامبر(ص) اور مسلمانان اپنا عقيده اور فكر کو دشمن سے نہیں چھپاتے تو کیا کامیابی ممکن تھی؟!

کیا ایسے موارد میں تقیہ کرنا ہی اپنی کامیابی اور دشمن کی نابودی کا سبب نہیں ہے ؟

اسی طرح اللہ کے خلیل حضرت ابراهيم(ع) نے جو تقیہ کیا تھا ،عرض کر چکا ، جو اگر اپنا عقیدہ نہ چھپاتے اور توریہ نہ کرتے تو کیا یہ ممکن تھا کہ لوگ اسے اکیلا شہر میں رکنے دیتے ؟ ہرگز نہیں.اس صورت میں آپ کو بت خانے کی طرف جانے کی فرصت بھی کہاں ملتی ؟!لیکن آپ نے جو اپنا عقیدہ چھپایا اور جو نقشہ آپ نے تیار کیا ہوا تھا اسے اپنی انتہا کو پہنچانے کیلئے تقیہ ہی سے کام لیا.اور یہی آپ کی کامیابی کا راز بنا.

ان تمام روايات میں كه تقيہ کو بہ عنوان ايك دفاعي سپر یا ڈھال « جنّة المؤمن، ترس المؤمن» معرفي کرایا گیا ہے وہ سب تقیہ کے اسی قسم میں سے ہیں .

۳ ـ تقيہ دوسروں کی حفاظت کیلئے

کبھی اپنے عقیدے کا اظہار کرنا اپنے اثر رسوخ ہونے کی وجہ سے اپنی ذات کیلئے تو کوئی ضرر یا ٹھیس نہیں پہنچتا ، لیکن ممکن ہے دوسروں کیلئے درد سر بنے . ایسی صورت میں بھی عقیدہ کا اظہار کرنا صحیح نہیں ہے .

اهل بيت اطہار (ع) کے بعض اصحاب اور انصار کی حالات زندگی میں ایسے موارد دیکھنے میں آتا ہے کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم و جابر حکمرانوں کی طرفسے لوگ ان کا پیچھا کررہے تھے ، ان کا اپنے اماموں کے ساتھ رابطہ قائم کرنا حکمران لوگ ان کے جانی دشمن بننےکا باعث تھا.ان میں سے کچھ موارد یہ ہیں :

ایک دن زرارہ نے جو امام باقر(ع) اور امام صادق (ع)کے خاص صحابیوں میں سے تھے ؛ امام جمعہ کو امام کی طرف سے ایک خط پہنچایا ، جس میں امام نے جو لکھا تھا اس کا مفہوم یہ تھا : میری مثال حضرت خضر کی سی ہے اور تیری مثال اس کشتی کی سی ہے جسے حضرت خضر(ع) نے سوراخ کیا تاکہ دشمن کے شرسے محفوظ رہے .اور تیرے سر پر ایک ظالم اور جابر بادشاہ کھڑا ہے ، جو کشتیوں کو غصب کرنے پر تلا ہوا ہے ، جس طرح حضرت خضر(ع) نے اس کشتی کو سوراخ کیا تاکہ غاصب اس کو نہ لے جائے، اسی طرح میں بھی تمہیں محفلوں میں کبھی کبھی ڈراتااور مذمت کرتا رہوں گا ، تاکہ تو فرعون زمان کے شر سے محفوظ رہے .

امام حسين(ع)سے جو تقيہ کے حدود کو سرکرنےنے والوں کا سردار ہیں، فرماتے ہیں : انّ التقية يصلح اﷲ بہا امّة لصاحبہا مثل ثواب اعمالهم فان تركها اهلك امّة تاركها شريك من اهلكهم. (1 )

ایسا تقيہ کرنے والاجوامت کی اصلاح کا سبب بنے ، اس کا انجام دینے والے کو اس پوری قوم کے اچھے اعمال کا ثواب دیا جائے گا . کیونکہ اس قوم کی طاقت اور قوت کو زیادہ خدمت کرنے کیلئے محفوظ کیا . لیکن اگرایسے موارد میں تقیہ کو ترک کرے اور ایک امت کو ہلاکت میں ڈالے تو ہلاک کرنے والوں کے جرم میں یہ بھی برابر کے شریک ہے .اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے موارد میں تقیہ کا تر ک کرنا قاتلوں کے جرم میں برابر کے شریک بنتا ہے. (2 )



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 next