تقیہ کے بارے میں شکوک اورشبہات



تقیہ کے بارے میں شکوک اورشبہات

ائمه طاہرین (ع)کے زمانے میں دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں کی طرف سے شیعوں پر مختلف قسم کے شکوک و شبہات پیدا کرنے لگے؛ ان میں سے ایک تقیہ ہے .

سب سے پہلا اشکال اور شبہہ پیدا کرنے والا سلیمان بن جریر ابدی ہے جو فرقہ جریرہ کا رہبر ہے . وہ امام صادق(ع)کا ہم عصر ہے .اس کا کہنا ہے کہ شیعوں کے امام جب کسی خطا کے مرتکب ہوتے تھے تو تقیہ کو راہ فرار کے طور پر مطرح کرتے تھے . اور کہتے تھے کہ یہ تقیہ کے طور پر انجام دیا گیا ہے . (1 )

یہ اشکال اس کے بعد مختلف کلامی اور تفسیری کتابوں میں اہل سنت کی جانب سے کرنے لگے . بعد میں شیعہ بڑے عالم دین سيد شريف مرتضي(رہ) معروف بہ علم الهدي (۳۵۵ ـ۴۳۶)ق نے ان شبہات اور اشکالات کا جواب دیا ہے. (2 )

فخر رازي(۵۴۴ ـ ۶۰۶ ه ) صاحب تفسير كبيرنے « مفاتيح الغيب»میں سليمان ابن جرير کے تقیہ کے بارے میں اس شبہہ کوتكرار کیا ہے، جس کا جواب خواجه نصير الدين طوسي(رہ)(۵۷۹ـ ۶۵۲ق) نےدیا ہے . (3 )

بيشترين شبہات گذشتہ دور میں تقي الدين احمد معروف بہ ابن تيميه (۶۶۱ـ۷۲۸ق) کی کتاب منهاج السنّه ، میں دیکھنے میں آتا ہے جو مجموعاً پانچ اشکالات پر مشتمل ہے . (4 )

شبہات کی تقسيم بندي

وہ شبہات جوتقیہ سے مربوط ہے وہ تین بخش میں تقسيم كرسکتے ہیں :

وہ شبہات جو مربوط ہے تشريع تقيہ سے

تقيہ یعنی جھوٹ.



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 next