تقیہ کے بارے میں شکوک اورشبہات



اس بات پر اجماع هے که اگر کوئی کفر کے اظهار کرنے پر مجبور هو جائے ، اور جان کا خطره هو تو ایسی صورت میں ضرور اظهار کفرکرے .جبکه اس کا دل ایمان سے پر هو ، تو اس پر کفر کا فتوا نهیں لگ سکتا .یا وہ کفر کے زمرے میں داخل نهیں هوسکتا .

ابن بطال کهتا هے : واجمعوا علي من اكره علي الكفر واختار القتل انه اعظم اجرا عنداﷲ !یعنی علماء کا اجماع هے که اگر کوئی مسلمان کفر پر مجبور هوجائے ، لیکن جان دینے کو ترجیح دے دے تو اس کے لئے الله تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑا اجر اور ثواب هے .

خوداهل سنت تقيہ کے جائز هونے کو قبول کرتے هیں . لیکن جس معنی ٰ میں شیعه قائل هیں ، اسے نهیں مانتے .یعنی ان کے نزدیک تقیه ، رخصت یا اجازت هے ، لیکن شیعوں کے نزدیک ، ارکان دین میں سے ایک رکن هے . جیسے نماز. اور بعد میں امام صادق(ع)کی روایت کو نقل کرتے هیں، جو پيامبر اسلام(ص) سے منسوب هے . قال الصادق(ع) : لو قلت له تارك التقيہ كتارك الصلوة . اس کے بعد کهتےهیں که شیعه صرف اس بات پر اکتفاء نهیں کرتے بلکه کهتے هیں : لا دين لمن لا تقية له . (5 )

تقيہ، زوال دين کا موجب ؟!

کها جاتا هے که تقیه زوال دین اور احکام کی نابودی کا موجب بنتا هے . لهذا تقیه پر عمل نهیں کرنا چاهئے .اور اس کو جائز نهیں سمجھنا چاهئے .

جواب: تقيہ ، احكام پنجگانه میں تقسيم كيا گیا هے :یعنی:واجب ، حرام ، مستحب ، مكروہ ، مباح.

حرام تقيہ، دین میں فساد اور ارکان اسلام کے متزلزل هونے کا سبب بنتا هے . بہ الفاظ دیگر جوبھی اسلام کی نگاه میں جان، مال ، عزت، ناموس وغیره کی حفاظت سے زیاده مهم هو تو وہاں تقیه کرنا جائز نهیں هے ، بلکه حرام هے .اور شارع اقدس نے بھی یهی حکم دیا هے .کیونکه عقل حکم لگاتی هے که جب بھی کوئی اهم اور مهم کے درمیان تعارض هوجائے تو اهم کو مقدم رکھاجائے ، اور اگر تقیه بھی موجب فساد یا ارکان اسلام میں متزلزل هونے کا سبب بنتا هے تو وہاں تقیه کرنا جائز نهیں هے .

ائمه طاهرین(ع) سے کئی روايات هم تک پهنچی هے که جو اس بات کی تائید کرتی هیں ؛ اور بتاتی هیں که بعض اوقات تقیه کرنا حرام هے .

امام صادق (ع)فرمود: ... فكل شيئ يعمل المؤمن بينهم لمكان التقية مما لا يؤدي الي الفساد في الدين فانّه جائز(6 ) امام نے فرمایا: هر وہ کام جو مؤمن تقیه کے طور پر انجام دیتے هیں ؛اور دین کیلئے کوئی ضرر یا نقصان بھی نه هو ،اور کوئی فساد کا باعث بھی نه هو ؛ تو جائز هے .

امام صادق (ع)کی اس حدیث سے معلوم هوتا هے که تقیه بطور مطلق حرام نهیں هے بلکه وہ تقیه حرام هے جو زوال دین کا سبب بنتا هو .



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 next