تقیہ کے بارے میں شکوک اورشبہات



۱. اگر تقیہ جھوٹ ہے تو الله تعالي نے قرآن مجید میں کئی جگہوں پر کیوں تقیہ کرنے والوں کی مدح سرائی کی ہے ؟!:جیسے آلعمران کي آيه نمبر ۲۸ میں فرمایا : الّا ان تتقوا منهم، اورسوره نحل کي آيه۱۰۶ میں فرمایا : الا من اكره و قلبہ مطمئن بالايمان.

اللہ تعالی نے صرف تقیہ کرنے کو جائز قرار نہیں دیا بلکہ مجبوری کے وقت تقیہ کرنے کا باقاعدہ حکم دیا ہے اور تقيہ کرنے کا شوق دلايا ہے .

دوسرا جواب یہ ہے کہ کیا جب کافروں کی طرف سے مجبور کیا جائے اور تقیہ کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہ ہو تو وہاں کیا جھوٹ بولنا صحیح نہیں ہے ؟ کیونکہ ہر جگہ جھوٹ بولنا برا نہیں ہے . جیسے اگر کسی دو مسلمان بھائیوں کے درمیان الفت اور محبت پیدا کرنے اور خون و خرابہ سے بچنے کیلئے جھوٹ بولنا جائز ہے ، کیونکہ اگر سچ بولے تو جھگڑا فساد میں اضافہ ہوسکتا ہے .

لیکن اس اشکال کا جواب یوں دیا جاسکتا ہے کہ : یہ اشکال دومقدمہ (صغری اور کبری) سے تشکیل پایا ہے . صغری میں کہا کہ تقیہ ایک قسم کا جھوٹ ہے . یہ صغری ہر مصداق اور مورد میں صحیح نہیں ہے . کیونکہ تقیہ اخفائی یعنی واقعیت کے بیان کرنے سے سکوت اختیار کرنے کو کوئی جھوٹ نہیں کہتا . بلکہ یہ صرف تقیہ اظہاری میں صدق آسکتا ہے . وہ بھی توریہ نہ کرنے کی صورت میں .

پس تقیہ کے کچھ خاص مورد ہے جہاں تقیہ کا مصداق کذب اور جھوٹ ہے.

لیکن کبری ٰ یعنی جھوٹ بولنا قبیح اور برا ہے ؛ یہاں کہیں گے کہ جھوٹ ہر جگہ برا نہیں ہے .کیونکہ مختلف عناوین کو حسن و قبح کی کسوٹی پر ناپا جاتا ہے تو ممکن ہے درج ذیل تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت پائی جائے :

1. یا وہ عنوان حسن و قبح کیلئے علت تامہ ہے .جیسے حسن عدالت اور قبح ظلم.انہیں حسن و قبح ذاتی کہا جاتا ہے .

2. یا وہ عنوان جو خود بخود حسن و قبح کا تقاضا کرتا ہو ، بشرطیکہ کوئی اور عنوان جو اس تقاضے کو تبدیل نہ کرے ،اس پر صدق نہ آئے .جیسے کسی یتیم پر مارنا خود بخود قبیح ہے لیکن اگر ادب سکھانے کا عنوان اس پر صدق آجائے تو یہ قباحت کي حالت سے نکل آتی ہے .ایسے حسن و قبح کو عرضی کہتے ہیں.

3. یا وہ عنوان جو حسن و قبح کے لحاظ سے متساوي الطرفين ہو .اور حسن و قبح سے متصف ہونے کیلئے مختلف شرائط کی ضرورت ہے . جیسے کسی پر مارنا اگر ادب سکھانے کیلئے ہو تو حسن ہے اور اگر اپنا غم و غصہ اتارنے کیلئے مارے تو قبیح ہےليکن اگر کسی بےجان چیز پر مارے تو نہ حسن ہے اور نہ قبیح ہے .

اور یہاں ہم اس وقت جھوٹ بولنے کو قبیح مانیں گے کہ پہلا عنوان اس پر صدق آتا ہو . جب کہ ایسا نہیں ہے .اور عقلا نے بھی اسے دوسری قسم میں شمار کئے ہیں . کہ جب بھی کوئی زیادہ مہمتر مصلحت کے ساتھ تزاحم ہو تو اس کی قباحت دور ہوجاتی ہے ، جیسے : ایک گروہ کا خون خرابہ ہونے سے بچانے کیلئے جھوٹ بولنے کو ہر عاقل شخص جائز سمجھتا ہے.



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 next