تقیہ کے بارے میں شکوک اورشبہات



ان لوگوں کو کيا غم ؟!

چاليس هجري سے ليکر اب تک شيعه اور ان کے اماموں نے رنج و الم، اذيت اورآزارميں زندگي کيں.کسي نے زندگي کا بيشتر حصه قيد خانوں ميں گذاري ، کسي کو تير اور تلوار سے شهيد کيا گيا، تو کسي کو زهر ديکر شهيد کيا گيا .ان مظالم کي وجه سے تقيہ کرنے پر بھي مجبور هوجاتےتھے.

ليکن دوسرے لوگ معاويه کي برکت سے سلسله بني اميه کے طويل و عريض دسترخوان پر لطف اندوز هوتے رهے ، اس کے علوہ مسلمانوں کے بيت المال ميں سے جوائز اور انعامات سے بھي مالامال هوتے رهے ،اور بني عباس کے دور ميں بھي يه برکتوں والا دسترخوان ان کيلئے بچھے رهے .يهي وجه تھي که ان نام نهاد اور ظالم وجابر لوگوں کو بھي اولي الامر اور واجب الاطاعة سمجھتے رهے .اس طرح يزيد پليد ، وليد ملعون اور حجاج خونخوار کو بھي خلفائے راشدين ميں شامل کرتے رهے .

خدايا !ان کی عقل کو کیا ہوگیا ہے ؟ یہ لوگ دوست کوبھی رضی اللہ اور دشمن کو بھی رضی اللہ. علی (ع)کوبھی خلیفہ اور معاویہ کوبھی خلیفہ مانتے ہیں، جب کہ ان دونوں میں سے ایک برحق ہوسکتا ہے . اگر کہے کہ ان کے درمیان سیاسی اختلاف تھا ؛ تو سب سے زیادہ طولانی جنگ مسلمانوں کے درمیان ہوئی ، جنگ صفین ہے ، جس میں سینکڑون مسلمان مارے گئے. اور جہاں مسلمانوں کاقتل عام ہورہاہو؛ اسے معمولی یا سیاسی اختلاف سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا.

اسی طرح یزید کو بھی رضی اللہ اور حسین کو بھی رضی اللہ ، عمر بن عبدالعزیز کو بھی رضی اللہ اور متوکل عباسی اور معتصم کو بھی رضی اللہ؟ یعنی دونوں طرف کو واجب الاطاعت سمجھتے ہیں. یہ کہاں کا انصاف اور قانون ہے ؟ اور کون سا عاقلانہ کام ہے ؟

جاي سؤال يهاں هے که کيا يه لوگ بھي کوئي رنج و الم ديکھيں گے ؟!

ليکن اس بارے ميں اماميه کا کيا عقيده هے؟ ذرا سن ليں : شيعه اسے اپنا امام اور خليفه رسول مانتے هيں الله اور رسول کي جانب سے معين هوا هو ، نه لوگوں کے ووٹ سے.اس سلسلے ميں بہت لمبي بحث هے ، جس کيلئے ايک نئي کتاب کي ضرورت هے .

خلاصه کلام يه هے که شيعه هر کس وناکس کو خليفه رسول نهيں مانتے؛ بلکه ايسے شخص کو خليفه رسول مانتے هيں ، جو خود رسول (صلی الله علیه و آله وسلم) کي طرح معصوم هو.

هم کهتے هيں که ٹھيک هے هم تقيہ کے قائل هيں ،ليکن هم پر اعتراض کرنے والے هميشه حاکم وقت کي چاپلوسي کرنے ميں مصروف هيں.اور آپ کوئي ايک مورد دکھائيں ، که جس ميں اپنے کوئي رهبر يا عالم ،ظالم و جابر خليفے يا حاکم کو نهي از منکر کرتے هوئے اسے ناراض کيا هو؟!

اس کے باوجود که آپ کے بہت سے علما جو درباري اور تنخوہ دار تھے ، جب بني اميه کا حاکم وليد ، بقول آپ کے،اميرالمؤمنين مستي اور نشے کي حالت ميں مسجد ميں نماز جماعت کراتا هے اور محراب عبادت کو شراب کي بدبو سے آلوده کرتا هے اور صبح کي نمازچار رکعت پڑھ ليتا هے ، جب لوگ کانافوسي کرنے لگتے هيں تو وہ پيچھے مڑ کر کهتا هے : اگر کم هوا تو اور چار رکعت پڑھا دوں؟!کوئي بھي حالت تقيہ سے نکل کر اسے روکنے يا نهي از منکر کرنے والا نهيں هوتا .



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 next