تقیہ کے بارے میں شکوک اورشبہات



اشکال يه ہے : اگر تقیہ کے قائل ہوجائیں تو اسلام میں جہاد کا نظریہ ختم ہونا چاہئے . جبکہ اس جہاد کے خاطر مسلمانوں کی جان و مال ضائع ہوجاتی ہیں . (10 )

جواب: اسلامي احكام جب بھی جانی یا مالی ضرر اور نقصان سے دوچار اور روبرو ہوجاتا ہے تو دو قسم میں تقسیم ہوجاتا ہے :

1. وہ احکامات جن کا اجراء کرنا کسی جانی ضرر یا نقصان سے دوچار نہیں ہوتا ، جیسے نماز کا واجب ہونا ، جس میں نہ مالی ضرر ہے اور نہ جانی ضرر .

2. وہ احکامات جن کا اجرا کرنا ، جانی یا مالی طورپر ضرر یا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے . جیسے زکوۃ اور خمس کا ادا کرنا ، راہ خدا میں جہاد کرنا وغیرہ .

تقیہ کا حکم صرف پہلی قسم سے مربوط ہے . کہ بعض موارد میں ان احکام کو بطور حکم ثانوی اٹھایا جاتا ہے .لیکن دوسری قسم سے تقیہ کا کوئی رابطہ نہیں ہے .اور جہاد کا حکم بھی دوسری قسم میں سے ہے ، کہ جب بھی شرائط محقق ہوجائے تو جہاد بھی واجب ہوجاتا ہے .اگرچہ بہت زیادہ جانی یامالی نقصان بھی کیوں نہ اٹھانی پڑے.

..............

(1 ). نوبختي، فرق الشيعه ، ص۸۵.

(2 ) . شيخ انصاري، رسائل ، ج۱،ص ۲۹۰، ۳۱۰.

(3 ) . المحصل ، ص ۱۸۲.

(4 ) . ابن تيميه ؛ منهاج السنّه النبويه، ج ۱،ص۱۵۹.



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 next