حضرت مسلم علیہ السلام کا سفر



 Ø§Ø¨Ù† زیاد کا موقف           

جب رات کااچھا خاصہ وقت گذر گیا اور کافی دیر انتظار کرنے کے بعد ابن زیاد نے دیکھا کہ مسلم بن عقیل کے مدد کرنے والوں اور نصرت کرنے والوں کی اس طرح کوئی آواز سنائی نھیں دے رھی ھے جیسے اس سے قبل سنائی دے رھی تھی تو اس نے اپنے گرگوں سے کھا:ذرادیکھو!ا ن میں سے کوئی تمھیں دکھائی دے رھاھے ؟ وہ لوگ گئے لیکن کوئی دکھائی نھیں دیا تو ابن زیاد نے کھا: ذرا غور سے دیکھو !شاید وہ لوگ کسی سایہ میں چھپے کمین میں بیٹھے ھوں ،لہٰذا ان لوگوں نے مسجد کے اندر باھراور اطراف میں دیکھا، اس کے بعد مشعلیں روشن کرکے دیکھنے لگے کہ کھیں کوئی چھپاھو اتو نھیں ھے۔ کچھ دیر کے لئے مشعلوں کو روشن رکھا پھر بجھادیا، اس کے بعد قندیلوں کو رسےّوں میں محکم باندھ دیا اور اس میںآگ روشن کرکے اوپر سے نیچے کی طرف رکھ دیا اور ھر گو شہ و کنارکو قندیلوں سے روشن کردیا یھاںتک کہ منبر کے اطراف کو بھی روشن کردیا ۔جب ھر طرح سے انھیں یقین ھوگیا کہ کوئی نھیں ھے تو ابن زیاد کو خبر دی کہ کوئی خطرہ نھیں ھے ۔ ابن زیاد نے فوراً اپنے کاتب عمر وبن نافع [71]کو حکم دیا کہ فوراً جا کر یہ اعلان کرے کہ حاکم ھر اس شخص کی حرمت سے دست بردار ھے جو نماز عشاء مسجد کے علاوہ کھیں اور پڑھے ،خواہ وہ پولس ھو یا عرفاء ،صاحبان شرف ھوں یا جنگجو۔ اس خطر ناک اور تھدید آمیز اعلان کا اثر یہ ھوا کہ دیکھتے ھی دیکھتے مسجد لوگوں سے چھلکنے لگی۔ ایسے موقع پر حصین بن تمیم تمیمی [72]جو اس کے نگھبانوںکا سردار تھا اس نے ابن زیاد سے کھا : اگر آپ چاھیں تو خود نماز پڑھائیں یا کسی دوسرے کو بھیج دیں جو نماز پڑھادے کیونکہ مجھے خوف ھے کہ آپ کے بعض دشمن آپ پر حملہ نہ کردیں ! اس پر ابن زیاد نے کھا : میرے محافظین و نگھبانوں سے کھوکہ جس طرح وہ میری حفاظت کے لئے صف باندھ کر کھڑے ھوتے ھیں اس طرح نماز کی پھلی صف میں کھڑے ھوں اور تم ان سب پر نگاہ رکھو۔ اس کے بعد حکم دیا کہ باب سدّہ جو مسجد میں کھلتا تھا اور اب تک بند تھا اسے کھولا جائے پھر ابن زیاد اپنے گرگوں کے ھمراہ وھاں سے نکلا اور لوگوں کونمازپڑھائی۔

مسلم (علیہ السلام) کی تنھائی کے بعد ابن زیاد کا خطبہ

 Ù†Ù…از Ú©Û’ بعد ابن زیاد منبر پر گیا اور حمد Ùˆ ثناے الٰھی بجالانے Ú©Û’ بعد بولا : امابعدجا Ú¾Ù„ اور      بیو قوف ابن عقیل Ú©Ùˆ تم لوگو Úº Ù†Û’ دیکھا کہ اختلاف اور جدائی Ù„Û’ کر یھاں آیا۔میں ھر اس شخص Ú©ÛŒ حرمت سے بری الذ مہ ھوں۔جس Ú©Û’ گھر میں Ú¾Ù… Ù†Û’ مسلم Ú©Ùˆ پا لیا اور جو بھی مسلم Ú©Ùˆ Ù„Û’ کرآئے گا اس کا خون بھا اسے دیدیا جا ئے گا ! اے بندگا Ù† خدا تقویٰ اختیار کرو ØŒ اپنی طاعت وبیعت پر برقرار رھواور اپنی حرمت Ø´Ú©Ù†ÛŒ Ú©Û’ راستے نہ کھولو Û”

اس Ú©Û’ بعدسپاھیوں Ú©Û’ سربراہ حصین بن تمیم Ú©ÛŒ طرف رخ کیا اور کھا : اے حصین بن تمیم ! ھشیار Ú¾Ùˆ جا اگر شھر Ú©Ùˆ فہ کا Ú©Ùˆ ئی دروازہ بھی کھلا یا یہ مرد اس شھر سے Ù†Ú©Ù„ گیا اور تو اسے نہ Ù¾Ú©Ú‘ سکا تو یہ دن تیری ماں Ú©Û’ لئے عزاکا دن Ú¾Ùˆ گا ! Ú¾Ù… Ù†Û’ تجھے Ú©Ùˆ فیوں Ú©Û’ سارے گھر Ú©Ùˆ سونپ دیا Ú¾Û’ØŒ تو آزاد Ú¾Û’ØŒ جس گھر میں چاھے   جا کر تلا Ø´ کر لہٰذا تو فوراً شھر کوفہ Ú©Û’ دروازوںپر نگھبانوں Ú©Ùˆ لگا دے اور Ú©Ù„ صبح سے دقت Ú©Û’ ساتھ گھروں Ú©ÛŒ تلا Ø´ÛŒ Ù„Û’ اورٹوہ میں Ù„Ú¯ جا یھا Úº تک کہ اس مرد Ú©Ùˆ میرے سامنے پیش کرے۔

 

  ابن زیاد مسلم Ú©ÛŒ تلا Ø´ میں

 Ø§Ø³ آتشیں تقریر Ú©Û’ بعد ابن زیاد منبر سے نیچے آگیا اور محل Ú©Û’ اندر چلا گیا اس Ú©Û’ بعدعمرو بن حریث مخزومی [73]Ú©Û’ ھا تھ میں ایک پر Ú†Ù… دے کر اسے اپنے اطرافیوں اور کار کنوں کا سر براہ بنا دیا[74] اور اپنی نیا بت میں اسے Ø­Ú©Ù… دیا کہ مسجد میں بیٹھ کر لوگوں Ú©Û’ امور Ú©Ùˆ حل وفصل کرے۔

عبیدا للہ Ú©Û’ خلاف جناب مسلم Ú©Û’ قیام Ú©ÛŒ خبر پورے Ú©Ùˆ فہ میں پھیل Ú†Ú©ÛŒ تھی۔ جناب مختار کوبھی جو Ú©Ùˆ فہ Ú©Û’ نزدیک ایک گاوٴں میں زندگی بسر کر رھے تھے جسے ” لقفا“ کھتے ھیں اور آپ جناب مسلم Ú©Û’ ھا تھوں پر بیعت کر Ù†Û’ Ú©Û’ بعد اس گاوٴں میں لوگوں سے جناب مسلم Ú©Û’ لئے بیعت Ù„Û’ رھے تھے،انھیں نصیحتیںکر رھے تھے اور لوگوں Ú©Ùˆ آپ Ú©ÛŒ       فر ما نبرداری Ú©ÛŒ دعوت دے رھے تھے ،جیسے جناب مسلم Ú©ÛŒ غر بت Ùˆ تنھا ئی Ú©ÛŒ خبر ملی اپنے دوستوں ØŒ غلاموں اور Ú¾Ù… فکروں Ú©Û’ ھمراہ ان Ú©ÛŒ مدد Ú©Û’ لئے روانہ ھوگئے۔ غروب آفتاب کا وقت تھا کہ  مختا ر مسجد Ú©Ùˆ فہ Ú©Û’  باب الفیل Ú©Û’ پاس آکر رکے ۔اپنے راستے میں عمرو بن حریث Ú©Û’ پاس وہ پر Ú†Ù… امان دیکھا جسے عبید اللہ Ù†Û’ جناب مسلم Ú©Û’ ساتھیوں Ú©Ùˆ دھوکہ دینے Ú©Û’ لئے اس Ú©Û’ ھا تھوں سونپا تھا Û”

جب مختار باب الفیل کے پاس تھے کہ وھاں سے ھا نی بن ابی حیہ وداعی کا گذرھوا۔[75] اس نے مختار سے کھا : تم یھاں کس لئے کھڑے ھو؟ ! نہ تو لوگوں کے ساتھ ھو نہ ھی اپنے راستہ پر ھو ؟ اس پر مختار نے کھا : تم لوگوں کی عظیم غلطی اور خطا پر میرے افکار متز لزل ھیں ۔

ھا نی بن ابی حیہ نے کھا : میں سمجھتا ھو ں کہ خود کو قتل کر وانا چاھتے ھو ۔یہ کہہ کر وہ وھاں سے آگے بڑھ کر عمروبن حریث کے پاس گیا اور اسے اس واقعہ سے خبر دار کردیا ۔[76]

مختار کا نظریہ

عبد الرحمن بن ا بی عمیر ثقفی[77] کا بیان ھے کہ میں عمرو بن حریث کے پاس بےٹھا تھا کہ ھانی بن ابی حیہ مختار کی سنانی لیکر پھنچا ۔ابن حریث نے مجھ سے کھا : اٹھو اور اپنے چچا سے کھو کہ مسلم بن عقیل کو نھیں معلوم ھے کہ تم کھاں ھو اور اپنی حرمت شکنی کے لئے راستہ نہ کھو لو۔ میں اٹھا کہ انھیں جا کر لاوٴں اس پر زائدہ بن قدامہ بن مسعود [78]اٹھا اور اس نے کھا کہ وہ مختار کو لا ئے گا لیکن اس شرط پر کہ وہ امان میں ھوں۔ عمروبن حریث نے کھا :

میری جانب سے وہ امن میں ھیں اور اگر بات امیر عبیداللہ بن زیاد تک پھنچی تو میں اس کے سامنے کھڑے ھو کر مختار کے حق میں گواھی دوںگا اور بھتر ین طریقہ سے سفارش کروںگا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 next