حضرت مسلم علیہ السلام کا سفر



 Ø¬Ù†Ø§Ø¨ مسلم Ù†Û’ فرمایا : ”انی واللّٰہ ما لنفسی ابکی “خداکی قسم میں اپنے لئے نھیں رورھا Ú¾ÙˆÚº ” ولا لھا من القتل اٴرثی“ اور نہ Ú¾ÛŒ قتل ھونے Ú©Û’ خوف سے میں مرثیہ کناں ھوں؛ اگر چہ میں پلک جھپکتے تلف ھونا پسند نھیں کرتا تھا  ”ولکن اٴبکی لاٴھلی المقبلین الیّ“ میں تو ان لوگوں پر آنسو بھارھاھوں جو میرے پیچھے آرھے ھیں۔  ”ابکی لحسین Ùˆ آل حسین (علیھم السلام )“ میں تو حسین اور اولاد حسین پر آنسو بھا رھاھوں Û”

حضرت مسلم (علیہ السلام) کی محمد بن اشعث سے وصیت

پھر حضرت مسلم علیہ السلام Ù†Û’ محمد بن اشعث Ú©ÛŒ طرف رخ کر Ú©Û’ فرمایا :”یاعبداللّٰہ انّی اٴراک واللّٰہ ØŒ ستعجز عن اٴمانی ØŒ فھل عندک خیرتستطیع           اٴن تبعث من عندک رجلاً علی لسانی ےُبلغ حسیناً،فانی لا اٴراہ الا قد خرج الیکم مُقبلاً اٴو Ú¾Ùˆ خارج غداًھو واٴھل بیتہ،وان ما تری من جزعي لذالک فیقول(الرسول)انّ ابن عقیل بعثني الیک ÙˆÚ¾Ùˆ فی اٴیدي القوم  اٴسیرلا یری اٴن یمشي حتی یقتل ÙˆÚ¾Ùˆ یقول: ارجع باٴھل بیتک ØŒ ولا یغرّک اٴھل الکوفة ! فانھم اٴصحاب ابیک  الذی کان یتمنّی فراقھم بالموت اٴو القتل!ان اٴھل الکوفہ کذبوک Ùˆ کذبوني!ولیس لمُکذَّب راٴی !“[84]

اے بندہ خدا !میں تو خدا Ú©ÛŒ قسم یہ دیکھ ر ھا Ú¾ÙˆÚº کہ توعنقریب مجھے امان دلانے سے عاجز Ú¾Ùˆ جائے گا Ø› کیا تجھ سے نیکی Ú©ÛŒ امید Ú©ÛŒ جاسکتی Ú¾Û’ ؟کیا تم کسی ایسے شخص Ú©Ùˆ اپنی طرف سے بھیجنے Ú©ÛŒ قدرت رکھتے Ú¾Ùˆ جو میری زبانی حسین علیہ السلام Ú©Ùˆ پیغام پھنچادے ØŒ کیو نکہ میں یہ سمجھتاھوںکہ وہ تم لوگوں Ú©ÛŒ طرف آنے Ú©Û’ لئے آج Ù†Ú©Ù„ Ú†Ú©Û’ Ú¾Ùˆ Ù†Ú¯Û’ یا Ú©Ù„ Ù†Ú©Ù„ جائیں Ú¯Û’ جبکہ ان Ú©Û’ ھمر اہ ان کا پورا خاندان ھوگا۔تم جو ان  آنسو وٴں Ú©Ùˆ دیکھ رھے تھے اس کا سبب یھی Ú¾Û’ Û” وہ پیغام رساںجاکرامام حسین علیہ السلام یہ کہہ دے کہ ابن عقیل Ù†Û’ مجھے آپ Ú©Û’ پاس اس حال میں بھیجاھے کہ وہ گرفتار Ú¾ÙˆÚ†Ú©Û’ ھیںاور قدم بقدم شھادت Ú©ÛŒ طرف بڑھ رھے ھیں۔وہ اس عالم میں یہ کہہ رھے ھیںکہ آپ اپنے اھل بیت Ú©Û’ ساتھ پلٹ جاےئے! کھیںاھل کوفہ  آپ Ú©Ùˆ دھوکہ نہ دے دیں کیونکہ یہ ÙˆÚ¾ÛŒ لوگ ھیں جوآپ Ú©Û’ باباکے ساتھی تھے لیکن حضرت آرزو کرتے تھے کہ موت یا قتل Ú©Û’ ذریعہ ان سے جداھوجائیں۔اھل کوفہ Ù†Û’ آپ Ú©Ùˆ جھٹلایااور مجھے بھی جھٹلایا اور جھوٹے شخص Ú©ÛŒ کوئی رائے اور کوئی نظر نھیں ھوتی Û”

اس پر محمد بن اشعث بولا:میں تمھارا پیغام ضرور پھنچاوٴں گااور ابن زیاد کو ضروربتاوٴں گاکہ میں نے تم کو امان دی ۔

مسلم قصر کے دروازے پر

محمدبن اشعث، ابن عقیل کوقصرکے دروازے تک لے کر آیا۔ اس وقت آپ بھت پیاسے تھے۔ ادھر محل کے دروازے پر لوگ بےٹھے اجازت کے منتظر تھے جن میں عمارة بن عقبہ ابی معیط ، عمرو بن حریث ، مسلم بن عمر و اور کثیر بن شھاب [85]قابل ذکر ھیں۔ وھیں پر ٹھنڈے پانی کا کوزہ رکھا ھوا تھا۔ جناب مسلم نے کھا :” اسقونی من ھذا الماء“ مجھے تھوڑا سا پانی پلادو! تومسلم بن عمر و باھلی بولا : تم دیکھ رھے ھو کہ یہ پانی کتنا ٹھنڈا ھے ! خدا کی قسم اس میں سے ایک قطرہ بھی تم کو نھیں پلایا جائے گایھاں تک کہ جھنم کی بھڑکتی ھوئی آگ میں کھولتا ھوا پانی تمھارے نصیب ھو ۔

جناب مسلم نے کھا :” ویحک من انت ؟“ واے ھو تجھ پر تو کون ھے؟

 Ø§Ø³ Ù†Û’ کھا : میں اس کا فرزند Ú¾ÙˆÚº [86]کہ جب تم Ù†Û’ حق Û’ انکار کیا تواس Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ پھچان لیا اور جب تم Ù†Û’ اپنے امام حاکم سے ناسازگاری کا مظاھرہ کیا تو اس Ù†Û’ خیر خواھی Ú©ÛŒ اور جب تم Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ نافرمانی اور مخالفت Ú©ÛŒ تو اس Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ فرمانبر داری اور اطاعت Ú©ÛŒ ! میں مسلم بن عمرو باھلی Ú¾ÙˆÚºÛ”    جناب مسلم :” لاٴمّک الثکل! ما اٴجفاک Ùˆ مااٴفظّک Ùˆ اٴقسیٰ قلبک Ùˆ اٴغلظک ! اٴنت Û” یابن باھلہ۔ اٴولیٰٰ با لحمیم والخلود فی نار جھنم منّی “

تیری ماں تیرے ماتم میں بےٹھے! تو کتنا جفاکار،خشن،سخت دل اور بے رحم ھے ۔اے فرزند باھلہ! جھنم کی بھڑکتی ھوئی آگ اور اس میں ھمیشگی تجھ پر زیب دیتی ھے نہ کہ ھم پر۔

پھر آپ محل کی دیوار پر ٹیک لگا کر بےٹھ گئے۔ یہ حال دیکھ کر عمروبن حریث مخزومی نے اپنے غلام سلیمان کو بھیجا اور وہ کوزہ میںپانی لے کر آیا۔ [87]

اس کے اوپرایک رومال اور ساتھ میں ایک پیالہ بھی تھا۔اس نے پیالہ میں پانی ڈال کرجناب مسلم کو پینے کے لئے دیا لیکن جب بھی آپ پانی کو منھ سے لگاتے پیالہ خون سے بھر جاتا۔جب تیسری بار پیالہ خون سے بھر گیا اور پیتے وقت اس میں آگے کے دو دانت گر گئے تو حضرت مسلم نے فرمایا :” الحمد للّہ ! لو کان لی من الرزق المقسوم شربتہ“[88]اگر یہ پانی میرے رزق میں ھوتا تو میں اسے پی لیتا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 next