حضرت مسلم علیہ السلام کا سفر



ابن زیاد : ایسی باتیں کررھے ھو کہ گویا قوم و ملت کی پیشوائی اور ان پرحکومت تمھارا حق ھے ۔

  مسلم :” واللّہ ما Ú¾Ùˆ با لظن ولکنہ الیقین“خدا Ú©ÛŒ قسم اس میں ذرہ برابر گمان نھیں بلکہ یقیناً یہ ھماراھی حق Ú¾Û’Û”

ابن زیاد :اللہ مجھکو قتل کر دے اگر میں تم کو اس طرح قتل نہ کروں جس طرح پورے اسلام کی تاریخ میںاب تک کسی کو قتل نھیںکیا گیا ھے۔

مسلم : ”اٴما انک لاتدع سوء القتلة Ùˆ قبح المثلہ Ùˆ خبث السیرة Ùˆ لوٴم الغلبة ولا اٴحد من الناس اٴحق بھا منک“ ھاں !بے دردی سے قتل کر Ù†Û’ ،بری طرح جسم Ú©Ùˆ Ù¹Ú©Ú‘Û’ Ù¹Ú©Ú‘Û’ کرنے ØŒ خبیث اور پلید سرشت اور ملامت آمیزعادت Ú©ÛŒ کثرت Ú©Ùˆ تم کبھی نہ ترک کرنا تیرے علاوہ ایسا برا کام کوئی انجام بھی نھیں دے سکتا Ú¾Û’Û” اوباشوں کا ھتھیار گالی Ú¾Û’ لہذا حضرت مسلم علیہ السلام Ú©ÛŒ عقل آفرین گفتگو اور اپنی قلعی کھلنے Ú©Û’ بعد سمیہ [91]Ú©Û’ فرزند کوجب کوئی جواب نھیں ملا تو اس Ù†Û’ امام حسین (علیہ السلام) ØŒ حضرت علی (علیہ السلام)  اور جناب عقیل Ú©Ùˆ گالیاں دینا شروع کر دیا Û”

 

حضرت مسلم علیہ السلام کی شھادت

پھر ابن زیاد بولا : اسے محل کی چھت پر لے جاوٴاور اس کی گردن مار دو ،اس کے بعد اس کے جسد کو زمین پر پھینک دو ۔یہ وہ موقع تھاجب جناب مسلم (علیہ السلام) نے اشعث کے لڑکے کو مخاطب کر کے فرمایا : ” یابن الاشعث اماواللّٰہ لولاانک آمنتنی ما استسلمت ، قم بسیفک دونی فقد اٴخفرت ذمتک“[92]اے اشعث کے فرزند! خدا کی قسم اگر تو نے امان دینے کا وعدہ نہ کیا ھوتا تو میں جنگ سے کبھی بھی دست بردار نہ ھوتالہذا اب اٹھ اور جسے وعدہٴ امان دیا ھے اس کاجواںمردی کے ساتھ دفاع کرکیونکہ تیری حرمت اور تیرے حقوق پامال کئے جارھے ھیں ۔

یہ سنتے Ú¾ÛŒ محمد بن اشعث آگے بڑھا اور ابن زیاد Ú©Û’ پاس آکر جناب مسلم Ú©Û’ زخمی ھونے ØŒ بکیر بن حمران پر حملہ کرنے اور اپنے امان دینے کا سارا واقعہ ابن زیاد سے کہہ سنایا اور اس بات Ú©ÛŒ بھی صراحت Ú©ÛŒ  کہ میں Ù†Û’ انھیں امان دی Ú¾Û’Ø› لیکن عبید اللہ بن زیاد بولا : تمھارے امان دینے سے کیاھوتا ھے،کیا Ú¾Ù… Ù†Û’ تمھیں امان دینے Ú©Û’ لئے بھیجا تھا ØŸÚ¾Ù… Ù†Û’ تو تم Ú©Ùˆ فقط اس لئے بھیجا تھاکہ تم اسے Ù„Û’ آوٴ ۔یہ سن کر     محمد بن اشعث خاموش ھوگیا Û” [93]

پھرا بن زیادبولا: کھاں Ú¾Û’ وہ شخص جس Ú©Û’ سر اور شانے پر ابن عقیل Ù†Û’ ضرب لگائی تھی؟ یہ کہہ کر اسے بلایا او ر اس سے یو Úº مخاطب ھوا :  اسے Ù„Û’ کر اوپر جاوٴ اور اس کا سر قلم کر Ú©Û’ اپنا انتقام Ù„Û’ لو !یہ سنتے Ú¾ÛŒ بکیرا حمری ”حضرت مسلم“ Ú©Ùˆ Ù„Û’ کر محل Ú©ÛŒ چھت پر اس حالت میں آیا کہ آ Ù¾ Ú©ÛŒ زبان پر تکبیر ( اللّہ اکبر ) واستغفار (استغفراللّہ Û”Û”Û”) تھا اور آپ ملائکہ الٰھی اور خدا وندعالم Ú©Û’ رسولوں پر درود Ùˆ سلام بھیج رھے تھے اور باربارزبان پر یہ فقرے جاری Ú¾Ùˆ رھے تھے: ”اللھم احکم بیننا Ùˆ بین قوم غرّونا Ùˆ کذّبونا Ùˆ اٴذلّونا“ خدا یا !ھمارے اور اس قوم Ú©Û’ درمیان  فیصلہ کر جس Ù†Û’ ھمیں دھوکہ دیا ØŒ ھمیں جھٹلایا اور ذلیل کیا !

بکیر بن حمران احمری آپ کو چھت کے اس حصہ کی طرف لے گیا جو اس وقت قصابوں کی جگہ تھی[94] اور وھیں پر آپ کا سر قلم کر کے آپ کو شھید کر دیا۔ سر کاٹنے کے بعداسے نیچے پھینک دیا اوراس کے فوراً ھی بعد جسم کو بھی نیچے ڈال دیا۔

قتل کر Ù†Û’ Ú©Û’ بعد بکیر بن حمران احمری جس Ù†Û’ ابھی ابھی جناب مسلم Ú©Ùˆ شھیدکیا تھا نیچے اترا  تو ابن زیاد Ù†Û’ اس سے پو چھا : اسے قتل کردیا ØŸ بکیرنے کھا: ھاں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 next