حضرت مسلم علیہ السلام کا سفر



ابن زیاد : ھرگز نھیں ! میں اس وقت تک تم کو نھیں جانے دوں گا جب تک تم انھیں یھاں نہ لے آوٴ!

ھانی : نھیں خدا کی قسم میں اسے کبھی نھیں لاوٴں گا !میں اپنے مھمان کو یھاں لے آوٴں تاکہ تم اسے قتل کردو !

ابن زیاد: خداکی قسم تم ضرور اسے یھاں لاوٴ گے۔

ھانی : خدا کی قسم میں کبھی نھیں لاوٴں گا ۔

جب دونوں کے درمیان اسی طرح تکرار بڑھتی گئی تو مسلم بن عمرو باھلی اٹھا اور اس نے کھا : خدا امیر کو سلا مت رکھے ! کچھ دیر آپ مجھے اور ان کو تنھا چھوڑ دیں تا کہ میں ان سے کچھ گفتگو کر سکوں اور اس کے بعد ھانی سے کھا : آپ اٹھ کر یھاں میرے پاس آےئے تاکہ میں آپ سے کچھ گفتگو کر سکوں ۔ھانی وھاں سے اٹھ کر اس کے کنارے آگئے جھاں ابن زیاد سے دوری تھی لیکن اتنی دوری پر تھے کہ ابن زیاد ان دونوں کو بخوبی دیکھ سکتا تھا اور جب ان دونوں کی آواز یں بلند ھو رھی تھیں تو وہ بخوبی ان کی گفتگو سن رھا تھالیکن جب وہ لوگ آھستہ آھستہ گفتگو کر رھے تھے تو یہ بات چیت ابن زیاد کے لئے نا مفھوم تھی۔ مسلم بن عمرو باھلی نے ھانی سے کھا : ا ے ھانی !تم کو خدا کا واسطہ ھے کہ اپنی جان کو خطرہ میں نہ ڈالو اور اپنے خاندان اور قبیلہ کو بلا وٴں میں مبتلا مت کرو!خدا کی قسم میں تمھا رے قتل سے بھت زیادہ پر یشان ھوں اور یہ نھیں چاھتا کہ تم قتل کر دئے جاوٴ۔ یہ ( مسلم بن عقیل ) جو تمھارے مھمان ھیںیہ انھیں لوگوں کے چچا زاد بھائی ھیں۔ یہ لوگ نہ تو انھیں قتل کریں گے اور نہ ھی نقصان پھنچائیں گے پس تم انھیںحاکم کوسونپ دو۔ اس میں نہ تو تمھا ری ذلت وخواری ھے اور نہ ھی تمھارے لئے عیب و منقصت ھے، تم تو انھیں فقط حاکم کے حوالے کر رھے ھو ۔

ھانی : کیوں نھیں ! خدا کی قسم اس میں میری ذلت وخواری ھے۔میں اپنے مھمان اور ھمسایہ کو اسے سونپ دوں ! جب کہ میں ابھی صحیح وسالم ھوں، دیکھنے اور سننے کی صلا حیت ابھی باقی ھے،میرے بازوٴں کی مچھلیاں ابھی قوت رکھتی ھیںاور میرے ناصرو مددگا ر بڑی تعداد میں موجودھیں خدا کی قسم اگر میں تنھا رہ جاوٴں اور میرا کو ئی ناصر ومددگا ر نہ رھے تب بھی میں اس کے ھاتھوں اپنے مھمان کو نھیں سونپوں گا یھاں تک کہ اس کے لئے مجھے موت آجائے۔ یہ جملے ھانی اس یقین کے ساتھ کہہ رھے تھے کہ ان کاقبیلہ ابھی ابھی ان کی مدد کے لئے حرکت میں آجائے گا اور اس ظلم وجورکے خلاف تلوار کھینچ لے گالہٰذا وہ بار بار قسم کھارھے تھے کہ میں خدا کی قسم کبھی بھی اپنے مھمان سے دست بردارنھیں ھوں گا ۔

 

موت کی دھمکی

ابن زیاد نے ھانی کی گفتگو سننے کے بعد کھا : اسے میرے پاس لاوٴ! ھانی کو اس کے پاس لے جا یا گیا؛ جب ھانی وھاں پھنچے توابن زیاد نے کھا : خدا کی قسم تم اسے (جناب مسلم) ضرور یھاں لاوٴ گے ورنہ میں تمھاری گردن اڑا دوں گا ۔

ھانی:اگر تم ایسا کروگے تو اپنے محل کے ارد گرد برھنہ شمشیروں کو پاوٴ گے۔[47]وہ یہ سمجھ رھے تھے کہ ان کے قبیلہ والے باھر ان کی باتیں سن رھے ھیں ۔

ابن زیاد : وائے ھو تجھ پر ! تو مجھے بر ھنہ شمشیروں سے ڈراتا ھے ! اسے میرے نزدیک لاوٴ! جب نزدیک لا یا گیا تو چھڑی سے ھانی کے چھرہ پراتنا مارا کہ ان کی پیشانی اور رخسار زخمی ھوگئے،ناک ٹوٹ گئی اور خون کپڑوں پربھنے لگا،رخسار اور پیشانی کے گوشت کٹ کرداڑھی پر گرگئے اور آخر کار چھڑی ٹوٹ گئی ۔

ھا نی نے اپنے بچاوٴ کے لئے وھیں کھڑے ایک شخص کے تلوار کے دستہ پر ھاتھ مارا لیکن لوگوں نے ان کو پکڑ لیا اور یہ کام نہ کرنے دیا ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 next