حضرت مسلم علیہ السلام کا سفر



 Ø§Ø³ Ú©Û’ بعد ابن اشعث Ù†Û’ اجازت چاھی تو اسے دربارمیں داخل ھونے Ú©ÛŒ اجازت مل گئی۔ اپنے ھمراہ وہ حضرت مسلم Ú©Ùˆ بھی ابن زیاد Ú©ÛŒ خدمت میںلیکر حاضر ھوا لیکن حضرت مسلم Ù†Û’ اسے امیر Ú©Û’ عنوان سے سلام نھیں کیا۔ نگھبان Ù†Û’ کھا : تم امیر Ú©Ùˆ سلام کیوں نھیں کرتے Û”

 Ø¬Ù†Ø§Ø¨ مسلم Ù†Û’ کھا : ”ان کان یرید قتلی فما سلامی علیہ وان کان لا یرید قتلی فلعمری لیکثرن سلامی علیہ“اگر یہ مجھے قتل کرنا چا ھتا Ú¾Û’ تو پھر سلام کس لئے !اور اگرقتل نھیں کرنا چاھتا تو میری جان Ú©ÛŒ قسم میرا اس پربھت بھت سلام Ú¾Ùˆ Û”

ابن زیاد Ù†Û’ کھا  :  مجھے اپنی جان Ú©ÛŒ قسم Ú¾Û’ کہ تم ضرور بالضرور قتل کئے جاوٴگے Û”

مسلم  : ایسا Ú¾ÛŒ ھوگا ØŸ

ابن زیاد : ھاں ایساھی ھوگا

مسلم : تو پھر مجھے اتنی مھلت دے کہ میں کسی آشنا سے وصیت کر سکوں ۔

 

 Ø¹Ù…ر بن سعد سے مسلم Ú©ÛŒ وصیت 

یہ کہہ کر جناب مسلم علیہ السلام عبیداللہ Ú©Û’ درباریوں Ú©ÛŒ طرف نگاہ دوڑانے Ù„Ú¯Û’ تو سعد Ú©Û’ بیٹے عمر پر نظر پڑی۔ اس سے مخاطب Ú¾Ùˆ کر آپ Ù†Û’ فرمایا : ” یا عمر ! انّ بینی Ùˆ بینک قرابة [89]ولی الیک حاجة وقد یجب Ù„ÛŒ علیک نجح حاجتی ÙˆÚ¾Ùˆ سرّ  “اے عمر !میرے اور تمھارے درمیان رشتہ داری Ú¾Û’ اور تم سے مجھے ایک کام Ú¾Û’ جو راز Ú¾Û’ لہذا تم پر لازم Ú¾Û’ کہ میرے اس کام Ú©Ùˆ انجام دو۔

عمر سعد نے اس درخواست سے انکار کرنا چا ھاتو عبیداللہ نے کھا : اپنے چچا زادبھائی کی درخواست مت ٹھکراوٴ ۔یہ سن کر عمر سعد اٹھا اور وھاں جا کر مسلم کے ھمراہ بےٹھا جھاں ابن زیاد بخوبی دیکھ رھاتھا۔ حضرت مسلم نے اس سے کھا : جب سے میںکوفہ میں آیاھوں اس وقت سے لے کر اب تک سات سو (۷۰۰) درھم کا مقروض ھو چکا ھوں اس کو تم میری طرف سے ادا کردینا۔

 Ø¯ÙˆØ³Ø±ÛŒ وصیت یہ کہ ھمارے جسد خاکی Ú©Ùˆ ان سے Ù„Û’ کر دفن کر دینااور تیسری وصیت یہ Ú¾Û’ کہ حسین علیہ السلام Ú©ÛŒ طرف کسی Ú©Ùˆ روانہ کر Ú©Û’ انھیں کوفہ آنے سے روک دینا کیونکہ لوگوں Ú©ÛŒ مسلسل درخواست اور مسلسل بیعت Ú©Û’ بعد میں Ù†Û’ ا Ù† Ú©Ùˆ Ù„Ú©Ú¾ دیا تھا کہ لوگ آپ Ú©Û’ ساتھ ھیں لہٰذا میں سمجھتا Ú¾ÙˆÚº کہ وہ راستہ میں Ú¾ÙˆÚº Ú¯Û’ Û”[90]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 next