حضرت مسلم علیہ السلام کا سفر



ھانی، ابن زیاد Ú©Û’ دربار میں  

یہ تمام افرادھانی Ú©Û’ پاس گئے اور شام تک ان Ú©Û’ پاس بےٹھے رھے۔ اس وقت جناب ھانی بن عروہ اپنے گھر Ú©Û’ دروازہ پر بےٹھے تھے۔ ان لوگوںنے جناب ھانی سے پوچھا کہ آپ امیر سے ملاقات کرنے کیوں نھیں آتے ؟وہ تو آپ Ú©Ùˆ بھت یاد کرتے ھیںاور کھا Ú¾Û’ کہ اگر آپ مریض ھیں تو میں عیادت Ú©Û’ لئے آوں۔ ھانی Ù†Û’ جواب دیا : بیماری میرے آنے میںمانع Ú¾Û’ تو اس پر ان لوگوں Ù†Û’ کھا :  امیر تک یہ خبر Ù¾Ú¾Ù†Ú†ÛŒ Ú¾Û’ کہ ھرشام Ú©Ùˆ آپ اپنے گھرکے دروازہ پر بےٹھتے ھیں اور انھیں انتظار میں رکھے ھیں۔ آپ Ú©Ùˆ بخوبی معلوم Ú¾Û’ کہ حاکم ایسی چیزوں Ú©Û’ متحمل نھیں ھوتے ھیں ؛لہٰذا Ú¾Ù… آپ Ú©Ùˆ قسم دیتے ھیں کہ آپ ابھی ھمارے ساتھ چلیں۔اس پر ھانی Ù†Û’ لباس منگوائے اور اسے پھناپھر خچر منگواکر اس پر سوار ھوکر قصر Ú©Û’ پاس Ù¾Ú¾Ù†Ú†Û’ اور گویا وھاں پھنچتے Ú¾ÛŒ ان بعض چیزوں سے آگاہ ھوگئے تھے جو ھونے والی تھیں لہذاحسان بن خارجہ سے کھا : جان برادر ! خدا Ú©ÛŒ قسم میں اس مرد سے خائف Ú¾ÙˆÚº ØŒ تم اس سلسلسہ میں کیا کھتے ھو؟اس پر حسان بن خارجہ Ù†Û’ کھا : اے چچا خدا Ú©ÛŒ قسم! میں آپ Ú©Û’ سلسلے میں ذرہ برابر خوف زدہ نھیں Ú¾ÙˆÚº Ø› آپ اپنے دل میں کسی خوف Ú©Ùˆ راہ کیوں دیتے ھیں جب کہ آپ بالکل بری ھیں ØŸ ابن زیاد Ú©Û’ گرگے جناب ھانی Ú©Ùˆ Ù„Û’ کر دربار میں داخل ھوئے۔ ابن زیاد Ú©ÛŒ نگاہ جیسے Ú¾ÛŒ ھانی پر Ù¾Ú‘ÛŒ زیر لب Ú©Ú¾Ù†Û’ لگا Û” احمق اپنے پیروں سے Ú†Ù„ کر اپنی موت Ú©ÛŒ طرف آیا ھے۔جب ھانی ابن زیاد Ú©Û’ پاس Ù¾Ú¾Ù†Ú†Û’ تو قاضی شریح [46]بھی وھاں موجود تھا۔ ابن زیاد Ù†Û’ ھانی Ú©ÛŒ طرف متوجہ Ú¾Ùˆ کر کھا :

 Ø§Ø±ÛŒØ¯ حیا تہ Ùˆ یرید قتلی

 Ø¹Ø°ÛŒØ±Ú© من خلیلک من مراد

میں اس کی حیات کی فکر میں ھوں لیکن یہ تو مجھکو قتل کرنا چاھتا ھے، ذرا اس سے پوچھو کہ اس کے پاس قبیلہٴ مراد کے اپنے دوست کے لئے کون ساعذرھے ۔

    ھانی، ابن زیاد Ú©Û’ روبرو 

ھانی بن عروہ اپنی درایت سے ابن زیاد کے ارادہ کو بھانپ چکے تھے لہٰذا خود ھی ابن زیاد کو مخاطب کیا: اے امیر ! تمھارا منظور نظر کیا ھے ؟ ابن زیاد بولا : ھانی ! بس کرو ! اپنے ارد گرد تم امیر المومنین اور مسلمین کے خلاف کیا کھیل کھیل رھے ھو ۔ تم نے مسلم بن عقیل کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی ھے اور اپنے اطراف میں اسلحوں اور جنگجووٴں کو جمع کر رھے ھو اور اس گمان میں ھو کہ یہ بات مجھ سے پوشیدہ ھے ۔

  ھانی : میں Ù†Û’ ایسا کوئی کام نھیں کیا Ú¾Û’ اور نہ Ú¾ÛŒ مسلم میرے پاس ھیں۔

  ابن زیاد : کیوں نھیں ! تم Ù†Û’ ایسا Ú¾ÛŒ کیا Ú¾Û’ Û”

  ھانی : میں Ù†Û’ یہ کام انجام نھیں دیا Ú¾Û’ Û”          

   ابن زیاد :کیوں نھیں ! یہ کام تم Ù†Û’ Ú¾ÛŒ کیا Ú¾Û’Û”

 Ø§Ø³ ردّ Ùˆ قدح اور توتو میں میں کا سلسلہ بڑھتا Ú¾ÛŒ گیااور ابن زیاد ان باتوں کا ذمہ داران Ú©Ùˆ ٹھھراتا رھا اور ھانی انکار کرتے رھے۔ آخر کار ابن زیاد Ù†Û’ معقل Ú©Ùˆ بلایا جوجاسوسی Ú©Û’ فرائض انجام دے رھاتھا۔ معقل فوراًسامنے آکر کھڑا ھوگیا۔ ابن زیاد Ù†Û’ کھا : اسے پھچانتے Ú¾Ùˆ ØŸ تو ھانی Ù†Û’ کھا : ھاں، اس وقت ھانی Ú©Û’ سمجھ میں آیا کہ یہ جاسوس تھا جو وھاں Ú©ÛŒ باتیں یھاں آکر سنایا کرتا تھا۔ اب چار وناچار ھانی بولے :

میری باتیں سنو اور اسے سچ سمجھو!خدا کی قسم میں تم سے جھوٹ نھیں بول رھاھوں۔ قسم ھے اس خدا کی جس کے علاوہ کوئی معبود نھیں ۔میں نے مسلم کو اپنے گھر آنے کی دعوت نھیں دی تھی اور نہ ھی میں اس کے سلسلہ میں کچھ جانتا تھا لیکن ایک دن میں نے انھیں اپنے گھر کے دروازہ پر بےٹھاھوا دیکھا ۔انھوں نے مجھ سے درخواست کی کہ میرے گھر میں آجائیں تو مجھے اس درخواست کو ٹھکرانے میں شرم آئی اور وہ اس طرح میری حرمت میں داخل ھوگئے۔ میں نے انھیں اپنے گھر میں جگہ دی،انکی مھمان نوازی کی اور پناہ دی ۔یھی وہ بات ھے جو ان کے سلسلہ میں تم تک پھنچائی گئی ھے۔اب اگر تم چاھو تو میں ابھی سنگین عھدو پیمان باندھ لوں کہ میرا حکومت کے خلاف شورش اور برائی کا کوئی ارادہ نھیں ھے اور اگر چاھوتو میں تمھارے پاس کوئی چیزگرو رکھ دوں تاکہ دوبارہ تمھارے پاس آجاوٴں اور ان کے پاس جاکر انھیں حکم دوں کہ میرے گھر سے نکل کر جھاں چاھے چلاجائے اور میرے پیمان و میری ھمساےگی سے نکل جائے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 next