وھابیوں کے عقائد



”اَللّٰهم شَفِّعْ نَبِیِّنَا مُحَمَّداً فِیْنَا یَوْمَ الْقِیَامَة، اَللّٰهم شَفِّعْ فِیْنَا عِبَادَکَ الصَّاْلِحِیْنَ“

”خداوندا ! ھمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو روز قیامت ھمارا شفیع قرار دے، خداوندا ! اپنے صالح بندوں کو ھمارا شفیع قرار دے“۔

لیکن ” یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ØŒ یَا وَلِیّ اللّٰہِ اَسْاٴَلُکَ الشَّفَاعَةَ“ یا اسی طرح Ú©Û’ دوسرے الفاظ مثلاً ”یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَدْرِکْنِی، یَا اَغِثْنِی“زبان پر جاری کرنا خدا Ú©Û’ ساتھ شرک  Ú¾Û’Û”[61]

ابن قیم کھتا ھے کہ شرک کے اقسام میں سے ایک قسم مُردوں سے استغاثہ کرنا یا ان کی طرف توجہ کرنا بھی ھے، مُردے کسی کام پر قادر نھیں ھیں، وہ خود تو اپنے لئے نفع ونقصان کے مالک ھیں نھیں، پھرکس طرح استغاثہ کرنے والوں کی فریاد کو پهونچ سکتے ھیں، یا خدا کی بارگاہ میں شفاعت کرسکتے ھیں؟۔

شیخ صُنعُ اللہ حنفی کھتا Ú¾Û’ کہ آج Ú©Ù„ مسلمانوں Ú©Û’ درمیان ایسے گروہ پیدا هوگئے ھیں جو اس بات کا دعویٰ کرتے ھیں کہ اولیاء اللہ Ú©ÛŒ کرامتوں میں سے ایک کرامت یہ بھی Ú¾Û’ کہ وہ اپنی زندگی یا موت Ú©Û’ بعد بھی بعض تصرفات کرسکتے ھیں مثلاً جو لوگ مشکلات اور پریشانیوں Ú©Û’ وقت ان سے استغاثہ کرتے ھیں وہ ان Ú©ÛŒ مشکلات Ú©Ùˆ دور کردیتے ھیں، یہ لوگ قبور Ú©ÛŒ زیارتوں Ú©Û’ لئے جاتے ھیں، اور وھاں  طلب حاجت کرتے ھیں، اور ثواب Ú©ÛŒ غرض سے وھاں پر قربانی Ùˆ نذر وغیرہ کرتے ھیں۔

شیخ صنع اللہ یھاں پر اس طرح اپنا عقیدہ بیان کرتا ھے کہ ان باتوں میں افراط وتفریط بلکہ ھمیشگی عذاب ھے اور ان سے شرک کی بو آتی ھے۔ [62]

ابن سعود ذی الحجہ ۱۳۶۲ھ میں مکہ معظمہ میں کی جانے والی اپنی تقریر میںکھتا ھے کہ ”عظمت اور کبریائی خداوندعالم سے مخصوص ھے اور اس کے علاوہ کوئی معبود نھیں، اور یہ باتیں ان لوگوں کی ردّ میں ھیں جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پکارتے ھیں اور ان سے حاجت طلب کرتے ھیں۔

 Ø¬Ø¨Ú©Û آنحضرت   صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ú©Ùˆ Ú©Ú†Ú¾ بھی اختیار اور قدرت نھیں Ú¾Û’ اور توحید خداوندعالم سے مخصوص Ú¾Û’ØŒ اور اسی Ú©ÛŒ عبادت هونا چاہئے اور امید اور خوف اور تمنا خدا وندعالم سے هونی چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ú©ÛŒ بعثت اسی طرح دیگر انبیاء  علیهم السلام  Ú©ÛŒ نبوت، صرف لوگوں Ú©Ùˆ توحید کا سبق پڑھانے Ú©Û’ لئے تھی۔[63]

شیخ صنع اللہ کھتے ھیں کہ ظاھری اور معمولی کاموں میں استغاثہ جائز ھے،مثلاً جنگ، یا دشمن اور درندہ کے سامنے کسی سے مدد طلب کی جاسکتی ھے، لیکن معنوی امور میں کسی سے استغاثہ کرنا مثلاً انسان پر یشانیوں کے عالم میں ، بیماری کے، یا غرق هونے کے خوف سے یا روزی طلب کرنے میں کسی دوسرے سے استغاثہ نھیں کرسکتا بلکہ ان چیزوں میں صرف خدا سے استغاثہ کرنا چاہئے اور کسی غیرخدا سے استغاثہ جائز نھیں ھے۔ [64]

زینی دحلان محمد بن عبد الوھاب کا قول نقل کرتے ھیں کہ اگر کوئی شخص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم یا دوسرے انبیاء  علیهم السلام  سے استغاثہ کرے یا ان میں سے کسی ایک Ú©Ùˆ پکارے، یا ان سے شفاعت طلب کرے تو ایسا شخص مشرکوں Ú©ÛŒ طرح Ú¾Û’ØŒ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم اور دیگر انبیاء Ú©ÛŒ قبروںکی زیارت بھی خدا Ú©Û’ ساتھ شرک Ú¾Û’ØŒ اور زیارت کرنے والے مشرکوں Ú©ÛŒ طرح ھیں جو بتوں Ú©Û’ بارے میں کھتے تھے:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 next