وھابیوں کے عقائد



”لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَةٌ یَدْعُوْ بِها وَاُرِیْدُ اَنْ اَخْتَبِیَ دَعْوَتِی شَفَاعَةً لِاُمَّتِی فِیْ الآخِرَةِ“[69]

”ھر پیغمبر نے خداوندعالم سے کچھ نہ کچھ دعائیں کی ھیں اور میں نے اپنی دعا کو روز قیامت میں اپنی امت کی شفاعت کے لئے باقی رکھا ھے“۔

شیخ عبد الرحمن آل شیخ Ú©ÛŒ تحریر Ú©Û’ مطابق قیامت Ú©Û’ دن مخلوق خدا، انبیاء  علیهم السلام Ú©Û’ پاس جمع هوکر عرض کریں Ú¯ÛŒ کہ آپ خدا Ú©Û’ نزدیک ھماری شفاعت کریں، تاکہ روز محشر Ú©ÛŒ مشکلات سے نجات حاصل هوجائے۔ [70]

۷۔غیر خدا کو” سید“ یا” مولا “کہہ کر خطاب کرنا شرک ھے

مرحوم علامہ امین Ûº ØŒ ہدیة السنیہ رسالہ سے نقل کرتے ھیں کہ صاحب رسالہ Ù†Û’ زیارت قبور Ú©ÛŒ حرمت بیان کرنے Ú©Û’ بعد اس طرح کھا Ú¾Û’ کہ قبروں میں دفن شدہ لوگوں Ú©Ùˆ پکارنا اور ان سے استغاثہ کرنا یا ”یَا سَیّدی وَمَولای اِفْعَل کَذَا وَکذَا“ (اے میرے سید ومولا میری فلاں حاجت روا کریں) جیسے  الفاظ سے پکارنا ØŒ اور اس طرح Ú©ÛŒ چیزوں Ú©Ùˆ زبان پر جاری کرنا گویا ”لات وعزّیٰ“ Ú©ÛŒ پرستش Ú¾Û’Û” [71]

اس سلسلہ میں محمد بن عبد الوھاب کھتا ھے کہ مشرکین کا لفظ ”الہ“ سے وھی مطلب هوتا تھا جو ھمارے زمانہ کے مشرکین لفظ ”سید “ سے مرادلیتے ھیں۔[72]

خلاصة الکلام میں اس طرح وارد هوا ھے کہ محمد بن عبد الوھاب کے گمان کے مطابق اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو ”مولانا“ یا ”سیدنا“ کھے تو ان الفاظ کا کہنے والا کافر ھے۔ [73]

مذکورہ مطلب کی وضاحت

مرحوم علامہ امین Ûº مذکورہ گفتگو Ú©Ùˆ Ø¢Ú¯Û’ بڑھاتے هوئے فرماتے ھیں کہ کسی غیر خدا Ú©Ùˆ ”سید“ کہہ کر خطاب کرنا صحیح Ú¾Û’ اور اس میں کوئی ممانعت بھی نھیں Ú¾Û’ کیونکہ اس طرح Ú©ÛŒ گفتگو میں کوئی شخص بھی اس شخص Ú©Û’ لئے مالکیت حقیقی کا ارادہ نھیں کرتا، اس Ú©Û’ علاوہ قرآن مجید میں چند مقامات پر غیر خدا Ú©Û’ لئے لفظ سید استعمال هوا Ú¾Û’ ØŒ مثلاً جناب یحییٰ ابن زکریا  Úº Ú©Û’ بارے میں ارشاد هوتا Ú¾Û’:

<وَسَیّداً وَحَصُوْرا۔>[74]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 next