وھابیوں کے عقائد



”وَشَفَاعَتِی لِاٴہْلِ الذُّنُوْبِ مِنْ اُمَّتی“(جامع الصغیر ج۲ ص۳۳)

میں اپنی امت کے اھل ذنوب (گناھگاروں) کی شفاعت کرونگا۔

لہٰذا ثابت یہ هوا کہ انبیاء کرام اور اولیاء اللہ قیامت کے دن گناھگاروں کی شفاعت کریں گے، اور جو لوگ وھابیوں کی طرح شفاعت کے منکر هوں گے ان کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت نصیب نھیں هوگی، کیونکہ ”فتح الباری“ میں یہ حدیث موجود ھے کہ ”مَنْ کَذَّبَ بِالشَّفَاعَةِ فَلاٰ نَصِیْبَ لَہُ فِیْها“ (جو شخص شفاعت کا انکار کرے اس کو شفاعت نصیب نھیں هوگی۔[177]

اسی طرح خواجہ محمد حسن خان صاحب ہندی حنفی اپنی کتاب ”رسالہ الاصول الاربعة فی تردید الوھابیة“ میں جو فارسی زبان میں ھے ہندوستان میں وھابیت کے طرفدار لوگوں کی کتابوں اور رسالوں اور دوسرے لوگوں کی کتابوں سے نقل کرتے هوئے کھتے ھیں:

” وھابیوں کے عقائد کی فھرست تقریباً ۲۵۰ تک پہنچی ھے اور ان میں سے موصوف نے بعض کو بیان کیا ھے،[178]ان میں سے کچھ یہ ھیں کہ یہ فرقہ توحید کو اپنے سے مخصوص کرتا ھے اور دوسرے تمام فرقوں کو مشرک فی التوحید جانتا ھے، اور ان کا عقیدہ یہ ھے کہ خداوندعالم کو جھت اور مکان سے پاک ومنزّہ جاننا ایک بدعت او رگمراھی ھے، اسی طرح ان کا یہ بھی عقیدہ ھے کہ تمام انبیاء احکام کی تبلیغ میں معصوم نھیں ھیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعظیم صرف اپنے بڑے بھائی کی تعظیم کے برابر هونی چاہئے، اور یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قبر میں حیات نھیں رکھتے، اسی طرح انبیاء اور اولیاء اللہ کچھ بھی قدرت نھیں رکھتے، اور وہ سنتے بھی نھیں ھیں۔ان کا عقیدہ یہ بھی ھے کہ فقہ کی رائج کتابیں پڑھنے سے انسان کافر هوجاتا ھے لہٰذا ان کتابوں کا جلانا ضروری ھے،(مشکلات کے وقت پیغمبروں ، شھیدوں اور فرشتوں کو پکارنا شرک ھے ، لہٰذا اس زمانہ کے تمام لوگ کافر ھیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ مقدس کے سامنے بطور تعظیم کھڑا هونا شرک ھے۔ [179]

اس Ú©Û’ بعد موصوف وھابیوں Ú©Û’ عقائد Ú©ÛŒ ردّ کرتے ھیں، اور قبور Ú©ÛŒ زیارت Ú©Û’ سلسلہ میں  امام محمد بن ادریس شافعی کا قول نقل کرتے ھیں کہ حضرت امام موسیٰ ابن جعفرںکی قبر دعا Ú©Û’ قبول هونے میں مجرّب Ú¾Û’ØŒ اور ذھبی Ú©ÛŒ کتاب” تذکرة الحفاظ“ سے نقل کرتے ھیں کہ اھل سنت Ú©Û’ بزرگ حضرات جب خراسان میں حضرت امام رضاںکی قبرپر زیارت Ú©Û’ لئے جاتے ھیں تو کس قدر خضوع، خشوع اور تضرع کرتے ھیں، حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب ”تہذیب التہذیب“ (جلد Û· ص۳۸۸) میں اس طرح لکھتے ھیں:

”قَالَ (اِیِ الْحَاکِم) وَسَمِعْتُ اَبَابَکْرٍ مُحَمَّدِ بِنْ المُوٴمِّل یِقُوْلُ خَرَجْنَا مَعَ اِمَاِم الْحَدِیْثِ اَبِی بَکْرِ بْنِ خُزِیْمَة وَعَدِیْلِہِ اَبِی عَلِیٍّ الثَّقَفِی مَعْ جَمَاعَةٍ مِنْ مَشَایِخنَا وَهم اِذْ ذَاکَ مُتَوَافِرُوْنَ اِلٰی قَبْرِ عَلِیِّ ابْن مُوسٰی الرِّضَا ں بِطُوْس، قَالَ فَرَایْتُ مِنْ تَعْظِیْمِہِ یِعْنی اِبْنَ خُزِیْمَةِ لِتِلْکَ الْبُقْعَةِ وَتَوَاضِعِہ لَها وَتَضَرّعِہِ عِنْدَها مَاتَحَیَّرنَا“

(حاکم نیشاپوری) کھتے ھیں کہ میں نے محمد بن موٴمّل کو یہ کھتے سنا ھے : میں علم حدیث کے ماھر ابوبکر بن خزیمہ اور ابو علی ثقفی (ان کا علم بھی انھیں کی طرح ھے) اور ان کے بھت سے استاد کے ساتھ تھا جو حضرت امام رضا ں کی طوس میں زیارت کے لئے جارھے تھے اس وقت میں نے ابن خزیمہ کو اس قدر تعظیم، تواضع اور تضرع کرتے دیکھا کہ مجھے تعجب هونے لگا۔

 Ù…شهور ومعروف محدث ابو حاتم بن حبان حضرت امام علی الرضا Úº Ú©Û’ زندگی نامہ میں اس طرح لکھتے ھیں :

” مَا حَلَّتْ بی شِدَّةٌ فی وَقْتِ مَقَامی بِطُوْسْ وَزُرْتُ قَبْرَ عَلِیِّ ابْنِ مُوْسٰی الرِّضَا(ع) صَلَٰواتُ اللّٰہِ عَلٰی جَدِّہِ وَعَلَیْہِ وَدَعُوْتُ اللّٰہَ تَعٰالیٰ اِزَالَتَها عَنِّی اِلاّٰ اَسْتُجِیْبَ لِی وَزَالَتْ عَنِّی تِلْکَ الشِّدَّةُ وَہَذَا شَئْيٌ جَرَّبتُہُ مِرَاراً۔“



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 next