وھابیوں کے عقائد



قارئین کرام ! ھماری گفتگو کا خلاصہ یہ ھے کہ محمد بن عبد الوھاب توحید کی طرف دعوت دیتا تھا اورجو (اس کی بتائی هوئی توحید کو )قبول کرلیتا تھا اس کی جان اور مال محفوظ هوجاتی تھی اور اگر کوئی اس کی بتائی هوئی توحید کو قبول نھیں کرتا تھا اس کی جان ومال مباح هوجاتے تھے، وھابیوں کی مختلف جنگیں، چاھے وہ حجاز کی هوں یا حجاز کے باھر مثلاً یمن، سوریہ اور عراق کی جنگیں،اسی بنیاد پر هوتی تھیں اور جنگ میں جس شھر پر غلبہ هوجاتا تھا وہ پورا شھر ان کے لئے حلال هوجاتا تھا ،ان کو اگر اپنے املاک اور تصرف شدہ چیزوں میں قرار دینا ممکن هوتا تو ان کو اپنی ملکیت میں لے لیتے تھے ورنہ جو مال ودولت اور غنائم جنگی ان کے ھاتھ آتاا سی پر اکتفا کرلیتے تھے۔ [15]

اور جو لوگ اس Ú©ÛŒ اطاعت Ú©Ùˆ قبول کرلیتے تھے ان Ú©Û’ لئے ضروری تھا کہ دین خدا ورسول Ú©Ùˆ (جس طرح محمد بن عبد الوھاب کھتا تھا)قبول کرنے میں اس Ú©ÛŒ بیعت کریں، اور اگر Ú©Ú†Ú¾ لوگ اس Ú©Û’ مقابلے میں Ú©Ú¾Ú‘Û’ هوتے تھے تو ان Ú©Ùˆ قتل کردیا جاتا تھا، اور ان کا تمام مال تقسیم کرلیا جاتا تھا، اسی پروگرام Ú©Û’ تحت مشرقی احساء Ú©Û’ علاقہ میں ایک دیھات بنام ”فَصول“ Ú©Û’ تین سو لوگوں کوقتل کردیا گیا او ران Ú©Û’ مال Ú©Ùˆ غنیمت میں Ù„Û’ لیاگیا، اسی طرح احساء Ú©Û’ قریب ”غُرَیْمِیْل“ میں بھی یھی  کارنامے انجام دئے۔ [16]

اس سلسلہ میں شوکانی صاحب کھتے ھیں کہ محمد بن عبد الوھاب Ú©Û’ پیروکار ھراس شخص Ú©Ùˆ کافر جانتے تھے جو حکومت نجد میں نہ هو یا اس حکومت Ú©Û’ حکام Ú©ÛŒ اطاعت نہ کرتا هو، اس Ú©Û’ بعد شوکانی صاحب کھتے ھیں کہ سید محمد بن حسین المُراجل(جو کہ یمن Ú©Û’ امیر حجاج ھیں) Ù†Û’ مجھ سے کھا کہ وھابیوں Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ گروہ  مجھے اور یمن Ú©Û’ حجاج Ú©Ùˆ کافر کھتے ھیں اور یہ بھی کھتے ھیں کہ تمھارا کوئی عذر قابل قبول نھیں Ú¾Û’ مگر یہ کہ امیر نجد Ú©ÛŒ خدمت میں حاضر هو تاکہ وہ دیکھے کہ تم کس طرح Ú©Û’ مسلمان هو۔[17]

وھابیوں کی نظر میںوہ دوسرے امور جن کی وجہ سے مسلمان مشرک یا کافر هوجاتا ھے

وھابی لوگ توحید کے معنی اس طرح بیان کرتے ھیں کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا مسلمان باقی نھیں بچتا، وہ بھت سی چیزوں کو توحید کے خلاف تصور کرتے ھیں جن کی وجہ سے ایک مسلمان دین سے خارج او رمشرک یا کافر هوجاتا ھے،یھاں پر ان میں سے چند چیزوں کو بیان کیا جاتا ھے:

Û±Û”   اگر کوئی شخص اپنے سے بلا دور هونے یا اپنے فائدہ Ú©Û’ لئے تعویذ باندھے یا بخار Ú©Û’ لئے اپنے Ú¯Ù„Û’ میں دھاگا باندھے ØŒ تو اس طرح Ú©Û’ کام شرک کا سبب بنتے ھیںاور توحید Ú©Û’ بر خلاف ھیں۔ [18]

Û²Û”   محمد بن عبد الوھاب Ù†Û’ حضرت عمر سے ایک حدیث نقل Ú©ÛŒ Ú¾Û’ جو اس بات پر دلالت کرتی Ú¾Û’ کہ اگر کوئی غیر خدا Ú©ÛŒ قسم کھائے تو اس Ù†Û’ شرک کیا ØŒ او رایک دوسری حدیث Ú©Û’ مطابق خدا Ú©ÛŒ جھوٹی قسم غیر خدا Ú©ÛŒ سچّی قسم سے بھتر Ú¾Û’ØŒ لیکن صاحب فتح المجید اس بات Ú©ÛŒ تاویل کرتے هوئے کھتے ھیںکہ خدا Ú©ÛŒ جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ Ú¾Û’ ØŒ جبکہ غیر خدا Ú©ÛŒ سچی قسم شرک Ú¾Û’ جو گناہ کبیرہ سے زیادہ سنگین Ú¾Û’Û” [19]

Û³Û”   اگر کسی شخص Ú©Ùˆ کوئی خیر یا شر پهونچا Ú¾Û’ØŒ وہ اگر اسے زمانہ کانتیجہ جانے اور اس Ú©Ùˆ گالی وغیرہ دے تو گویا ا اس Ù†Û’ خدا Ú©Ùˆ گالی دی Ú¾Û’ کیونکہ خدا Ú¾ÛŒ تمام چیزوں کا حقیقی فاعل Ú¾Û’Û”[20]

Û´Û”   ابو ھریرہ Ú©ÛŒ ایک حدیث Ú©Û’ مطابق یہ کہنا جائز نھیں Ú¾Û’ کہ اے خدا اگر تو چا Ú¾Û’ تو مجھے معاف کردے یا تو چاھے تو مجھ پر رحم کردے، کیونکہ خدا وندعالم اس بندے Ú©ÛŒ حاجت Ú©Ùˆ پورا کرنے  Ú©Û’ سلسلہ میں کوئی مجبوری نھیں رکھتا۔ [21]

ÛµÛ”  کسی Ú©Û’ لئے یہ جائز نھیں Ú¾Û’ کہ وہ اپنے غلام او رکنیز Ú©Ùˆ ”عبد“ اور ”امہ“ Ú©Ú¾Û’ اور یہ Ú©Ú¾Û’ ”عبدی“ یا ”اَ مَتی“کیونکہ خداوندعالم تمام لوگوں کا پروردگار Ú¾Û’ اور سب اسی Ú©Û’ بندے ھیں اور اگر کوئی اپنے Ú©Ùˆ غلام یا کنیز کا مالک جانے ØŒ اگرچہ اس کا ارادہ خدا Ú©Û’ ساتھ شرکت نہ بھی هو ØŒ لیکن یھی ظاھری اور اسمی شراکت ایک قسم کا شرک Ú¾Û’ØŒ بلکہ اسے چاہئے کہ عبد اور امہ Ú©Û’ بدلے” فتیٰ“ اور ”فتاة“یا غلام Ú©Ú¾Û’Û” [22]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 next