امام مہدی(علیہ السلام) کے خاندان کی معرفت کے بارے میں گفتگو



احادیث شیعہ کے ساتھ ساتھ اھلسنت کی احادیث بھی اس باب میں پائی جاتی ھیں جس میں صرف ائمہ کی تعداد کی وضاحت ھے۔ جیسا کہ صحاح ستہ میں مذکور ھے۔ اور کبھی ذاتی طور پر حضرات ائمہ معصومین(علیہ السلام) کے اسماء ذکر ھوئے ھیں۔

ان سب کے علاوہ، وہ احادیث جو عامہ کے نزدیک قابل قبول ھیں وہ اس بات پر دلالت کر تی ھیں کہ امام مہدی(علیہ السلام) اس وقت تک زندہ رھیں گے جب ھم میں سے دو فرد باقی رہ جائیگی اور یہ اسی صورت میں ممکن ھے جب ھم امام حسین(علیہ السلام) کی نسل سے نواں فرزند فرض کریں۔ اس حصہ میں صرف ان احادیث کی تحقیق و بررسی کریں گے جو فریقین کی کتابوں میں مذکور ھیں:

حدیث ثقلین کے بارے میں ایک تحقیقی جایزہ

بیشک جب رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے رحلت فرمائی تو ”سنت“آپ کے عہد میں پورے طور سے تدوین نھیں ھوسکی تھی، بغیر اس کے کہ حضرت کی طرف سے کوئی تساھلی اور کوتاھی برتی گئی ھو اور دوسری طرف یہ بھی محال ھے کہ امت کی رھبری اور ہدایت کی ذمہ داری کو۔ آنحضرت کی طرف سے جو امت کے لئے حد درجہ شفیق و مھر بان تھے۔ مھمل چھوڑ دیا گیاھو ؛کس طرح حضرت امت کو صرف قرآن کی طرف رجوع کرنے کے حکم پر اکتفا کر لیتے جب کہ قرآن کریم ناسخ، مسنوخ، محکم، متشابہ، مجمل اور مفصل پر مشتمل ھے؟!

اور یہ ان وجوہ اور احتمالات کے علاوہ ھیں جو آیات میں مشاہدہ ھوتے ھیں اور جب اسلام کے مختلف فرق و مذاھب کے درمیان قیاس آرائیوں کا بازار یوری طرح سے گرم ھے، اسی طرح جب حضرت نے جان لیا کہ میری حیات طیبہ میں لوگوں نے مجھ پر جھوٹا الزام لگا دیا ھے تو وفات کے بعد کیا کھنا۔۔۔۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ھے کہ حضرت کی وفات کے بعد ان کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا ایک واقعی مسئلہ تھا ایک حدیث ھے جو خود آنحضرت سے نقل ھوئی ھے۔ اور ”درایت“ کی کتابوں میں عام طور پر ”متواتر لفظی“کی مثال دینے میں کام آتی ھے:جو بھی عمداً مجھ پر جھوٹا الزام لگائے گااس کی جگہ آتش جھنم ھے۔

اس بنا پر، کوئی معقول بات نھیں ھے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اپنی شریعت کو بغیر سرپرست کے چھوڑ دیں اور لوگوں کے اجتھاد کے حوالے کردیں، بغیر اس کے کہ اپنی امت کے لئے قرآن شناسی اور قرآن فھمی کے اعتبار سے کوئی مرجع یا محفوظ پناہ گاہ قرار نہ دیں اور ان کے نزدیک ساری کہ ساری سنت حاضرو محفوظ ھوں؛ ایسے مرجع کا وجود جو طبیعی طور پر دین کی حفاظت اور دینی راہ و روش کو دوام بخشنے نیز پوری شریعت کو انسان کی اجتماعی اور انفرادی زندگی پر تطبیق دینے سے بے بھرہ ھوں۔

اس لحاظ سے حدیث ثقلین کی اھمیت معلوم ھو جاتی ھے، جس طرح لوگوں کو عترت کی طرف ارجاع دینے کی اھمیت اس حدیث میں اور مختلف مناسبتوں کے موقع پر اور گونا گوں ارشادات منجملہ روز غدیر اور آخری بار بستر بیماری پر وصیت کرنے سے اس کی اھمیت واضح ھو جاتی ھے۔

حدیث کا متن۔ زید بن ارقم رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے اس طرح روایت کرتے ھیں[62]

جان لوکہ مجھے دعوت دی گئی تو میں نے لبیک کھا۔ میں تمھارے درمیان دو گرانقدر چیز چھو ڑھا ھوں ان میں سے ایک دوسرے کی بہ نسبت عظیم اور بڑی ھے؛ خدا کی کتاب اور میری عترت۔لہٰذا یاد رکھو (اور حفاظت کرو) ان دونوں کے مد مقابل میری کس طرح جانشینی کرو گے۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے ھرگز جدا نھیں ھوں گے، یھاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملاقات کریں گے (اور مجھ سے ملحق ھوں گے) خدا وند سبحان میرا مولیٰ ھے اور میں ھر مومن کا مولیٰ ھوں؛ اور جس کا میں مولیٰ ھوں اس کے یہ علی مولی ھیں۔خدایا! ان کے چاھنے والوں کو تودوست رکھ اور ان کے دشمنوں کو دشمن قرار دے۔

ابو سعید خدری رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے اس طرح نقل کرتے ھیں:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 next