امام مہدی(علیہ السلام) کے خاندان کی معرفت کے بارے میں گفتگو



میں تمھارے درمیان کچھ چیزیں چھوڑ رھا ھوں کہ اگر اس سے تمسک ا ختیار کرو گے تو میرے بعد کبھی گمراہ نھیں ھو گے، ان میں سے ایک دوسرے کی بہ نسبت عظیم ھے؛ خدا کی کتاب جو آسمان سے زمین تک کھنچی ھوئی رسی ھے۔ اور میری عترت جو میرے اھلبیت ھیں۔ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ھوں گے۔ لہٰذا یاد رکھو (اور اس کی محافظت کرو) کہ ان دونوں کے مقابل میرے کیسے جانشین ھو گے [63]یہ سب کچھ حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی مکرر تاکیدوں کے علاوہ کہ اھل بیت (ع)کی اقتدا کرو اور ان سے ارشاد و ہدایت کے خواھاں ھو اور ان کی مخالفت کرنے سے لوگوں کو ڈرایا ھے نیز کبھی”کشتی نجات“ یا ”امان امت“اور کبھی ”باب حطہ“سے ان بزرگوار کو یاد کیا ھے

حقیقت میں صحابہ کو رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے اھلبیت (ع)کی معرفت کے بارے میں سوال کرنے اور آنحضرت سے وضاحت طلب کرنے کی ضرورت نھیں تھی کیونکہ انھوں نے حضرت کو دیکھا ھے کہ روز مباھلہ اس حال میں گھر سے نکلے کہ ”اصحاب کساء“کے علاوہ کوئی ان کے ھمراہ نھیں تھا اور اس دن حضرت نے خداوندسبحان سے مخاطب ھو کر عرض کیا:

خدایا! یہ لوگ میرے اھل بیت اور میری عترت ھیں۔اور صحابہ ان بہترین لوگوں میں سے تھے جو کلام نبوی کے مفھوم کو درک کرتے اور سمجھتے تھے کہ نبی اکرم کی یہ بات فقط اصحاب کساء میں اھلبیت کے منحصر ھو نے پر دلالت کرتی ھے کیا ابن عباس کے نقل کرنے کے مطابق نو مھینہ تک حضرت کا فاطمہ کے دروازے کے سامنے کھڑے ھونا اور ھر روز صبح کے وقت اس آیت شریفہ کی تلاوت کرنا۔

< اِنَّمَا یرید اللّٰہُ لِےُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیت وَ یطھِّرَ کُمْ تَطْہِیراً>[64]

اس لئے کہ سبھی ”اھلبیت“ کو پہچانیں کافی نھیں تھا؟!

اس کے بعد کیا پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے سوال کی گنجائش باقی رہ جاتی ھے کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی رحلت کے بعد امت کو ضلالت و گمراھی سے بچانے والے کون لوگ ھوں گے کہ امت قرآن کے ساتھ ان سے تمسک رکھنے کی صورت میں،قیامت تک گمراھی سے محفوظ رھی گی۔

امت اور اسی طرح اصحاب کے لئے ”اھلبیت“کی سب سے پھلی فرد کی معرفت حاصل کرنے سے زیادہ ذمہ داری نھیں تھی اور نہ ھے، کیونکہ اس وقت امت کی رسید گی کی ذمہ داری انھیں کے اوپر تھی اور وھی امت کی گمراھی سے حفاظت کا فریضہ ادا کرتے تھے۔ اس وقت ان کی ذمہ داری ھے کہ وہ رسول کے حقیقی جانشین ھو نے کی حیثیت سے اس ذمہ داری اور فریضہ کو ادا کریں اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رھے گا آخری امام تک کہ وہ قرآن کے ساتھ، لوگوں کو ضلالت کے خطرناک گرداب میں رھنے سے روکیں گے۔ اور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے پاس حوض پر ملاقات کریں گے۔

امام علی(علیہ السلام) بے شمار اخبار و نصوص کے ذریعے، کہ جس میں حدیث ثقلین بھی ھے بنی کے سب سے پھلے جانشین اور عترت کے واجب الاتباع مصداق کے عنوان سے متعارف ھوئے ھیں۔ لہٰذا پھر کوئی ضرورت باقی نھیں رہ جاتی کہ خود رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)ولی امر کی تعیین کے سلسلہ میں ھر زمانے اور نسلوں میں ذمہ دار ھوں؛ اگر ھم نہ بھی کھیں (چنانچہ بعض مسائل یھی اقتضا کر تے ھیں، وجود نھیں ھے) تو بھی اساساً اےسی توقع و امید بے جا اور غیر طبیعی ھے۔ لہٰذا ھر دور اور ھر زمانے کے امام کی شناخت کا معیار ان دو راھوں میں سے کسی ایک کے ذریعہ ممکن ھے: یا ایک جگہ سارے کے سارے معین ھوں گے یا یہ کہ ھر سابق امام، لاحق و بعد میں آنے والے امام کی تصریح کرے گا۔ اور اس طرح سے وہ اسے معین و منصوب کرے گا۔ اور یہ دوسری راہ ایک فطری، مانوس، اور پہچانی ھوئی ھے جو انبیاء اور اوصیاء کی سیرت تھی۔ اور بہت سارے انسان صدیوں سے آج تک اپنی تدبیروں اور سیاستوں میں اس کی پیروی کرتے چلے آرھے ھیں۔اب اگر ھم اھلبیت کی تعیین اور تشخیص کے واقعہ کو ملاحظہ کریں تو ھمیں معلوم ھو جائے گا گذشتہ دونوں ھی طریقوں کے ذریعہ متواتر صورت میں ھم تک یہ امر پھونچا ھے اور اگرکوئی تاریخی اعتبار سے ائمہ معصومین(علیہ السلام) کی کار کردگی اور رفتار و گفتار کی تحقیق کرے تو قطعی طور پر یہ جان لے گاکہ یہ لوگ حکام عصر کے مقابل میں خود کو منصب ”امامت“کے لئے شائستہ اور امت کی رھبری کے لئے سزاوار جانتے تھے اور ھمیشہ حکومت وقت کی نسبت تنقیدی رویہ نیز مخالفت آمیز تحریک کے رھبر اور پیشرو تصور کئے جاتے تھے، اسی طرح ان کے بے شمار ماننے والے، ان کو اپنا ”رھبر و پیشوا“ جانتے تھے، اس طرح، ھر امام اپنے چاھنے والوں کو اپنے بعد والے امام کی طرف رھنمائی کرتا تھا ان کی سیرت ایسی تھی کہ ان کے پاکیزہ نفوس قید و زندان میں محبوس ھوتے اور وہ وقت کے ظالم حکام کے ھاتھوں شھادت کا جام نوش فرماتے خواہ زھر سے ھو یا میدان جنگ میں۔ اب اگر فرض کریں کہ ان بزر گوں میں سے کوئی ایک اپنے ماننے والوں کو اپنے بعد کے امام کا تعارف نہ کرائے جب کہ اس امام کا تعین و انصاب اسی کی نص پر موقوف ھے تو اس کے معنی یہ ھوں گے کہ اس کے بعد کے امام کی تعیّن کا نہ کرنا لازم آئے گا اور اس امام کی دائمی امامت اور رھبری، قرآن کے ھمراہ ھر دور اور نسل میں اس زمانے کے بعد ھوگی۔ چونکہ حدیث کا فقرہ اس کی تائید کرتا ھے کہ ھر گز ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے یھاں تک مجھ سے حوض کوثر پر ملاقات کریں۔

عترت پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے قرآن کے ھمراہ امام معصوم کا جاودانی تسلسل ھر زمانے میںمکمل واضح اور روشن ھے؛اسی لئے ابن حجر نے اس طرح اظھار خیال کیا ھے:

اھل بیت ٪سے تمسک کو واجب قرار دینے والی احادیث میں عترت پیغمبر سے شائستہ افراد کا سلسلہ قیامت تک منقطع ھونے والا نھیں ھے جو قیامت تک ان سے امت کے تمسک رکھنے کی طرف اشارہ ھے،جیسا کہ امت کوقیامت تک قرآن کریم سے متمسک رھنے کے لئے کھا گیا ھے یہ اس لحاظ سے ھے کہ اھل بیت (ع)زمین والو ںکے لئے”امان ھیں“”اور یہ حدیث”ھر زمانے میں میری امت سے یعنی میرے اھل بیت میں سے کوئی نہ کوئی عادل شخص موجود ھوگا“نیز اس حقیقت کی طرف اشارہ ھے[65]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 next