امام مہدی(علیہ السلام) کے خاندان کی معرفت کے بارے میں گفتگو



قندوزی حنفی اس غرض سے کہتا ھے؛

بعض محققین نے کھا ھے: رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے خلفاء کی تعداد بارہ بیان کرنے والی احادیث خاص شھرت کی حامل ھیں اور متعدد طرق سے نقل ھوئی ھیں اور ھم نے زمانہ کی روشنی اور روزگار کی توضیحات، سے سمجھا ھے کہ اس حدیث میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی ۱۲/ عدد سے مراد ان کے اھلبیت سے بارہ ائمہ ھیں اور اس حدیث کو اموی حکام پر تطبیق نھیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ ان کی تعداد بھی بارہ سے زیادہ ھے اور عمر ابن عبدلعزیز کے علاوہ سب کے سب ظلم و ستم کے مرتکب ھوئے ھیں اور یہ کہ وہ بنی ھاشم سے نھیں ھیں، جبکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)(کی عبدالملک کی روایت جابر سے) روایت کے مطابق جس میں فرمایا: ”ان میں سے سب بنی ھاشم سے ھوں گے“ اور رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی طرف سے اس عبارت کا آہستہ ادا ھونا روایت کی تائید کرتا ھے، چونکہ بنی امیہ، بنی ھاشم کی خلافت سے خوش نھیں تھے۔ اسی طرح حدیث کو عباسیوں پر بھی تطبیق نھیں کیا جاسکتا، کیونکہ عباسی خلفاء کی تعداد بارہ سے کھیں زیادہ تھی؛ دیگر یہ کہ انھوں نے عدالت اور پارسائی کی خاطر خواہ رعایت نھیں کی ۔۔۔ قابل ذکر ھے کہ حدیث ثقلین بھی پیغمبر کی عترت کے بارہ امام معصوم ھونے کی تائید کرتی ھے[78]

ایک طرف سے معلوم ھے کہ یہ حدیث نبوی (بارہ خلفاء کا بیان کرنے والی ھے) تاریخی لحاظ سے ائمہ معصومین (ع)کی مسلسل حیات سے پھلے صادر ھوئی ھے اور شیعی افکار و ثقافت کے رائج ھونے اور معاشرہ میں راسخ ھونے سے پھلے اھل سنت کی کتب صحاح وغیرہ میں ثبت ھوئی ھے لہذا یہ حدیث انجام شدہ تاریخی حوادث کے ثبت و ا نعکاس کا نتیجہ نھیں ھے، بلکہ حقیقت ربانی کی تعبیر اور مشیت الٰھی کے تقاضے کے مطابق ”لاینطق عن الھویٰ“ کے مصداق پیغمبر کی زبان سے صادر ھوئی ھے اس لحاظ سے حضرت کی بات کا مقصد کہ آپ نے فرمایا:”میرے بعد بارہ خلفاء ھوں گے“؛ اس اعتبار سے -صادر ھوئی ھے کہ زمانہ آئندہ میں اس سلسلہٴ نظام امامت پر شاہد اور اس کی تصدیق کرنے والی ھے جس کا آغاز علی ابن ابو طالب(علیھما السلام) سے اور اس کا اختتام امام مہدی(علیہ السلام) پر ھونے والا ھے اور یہ تنھا اس حدیث کی منطقی ا ور معقول تفسیر ھے[79]

 Ø§Ø¦Ù…ہ اثناء عشر Ú©Û’ نام Ú©ÛŒ تصریح بارہ خلفاء Ú©Ùˆ بیان کرنے والی Ú¾Û’Û”

ان ادلہ اور قرائن کے ذکر کے سلسلہ میں کہ جو ”بارہ خلفاء“ والی حدیث کی مراد کو واضح کرنے والی ھے اور امام مہدی(علیہ السلام) کی شخصیت کو نام ونسب اور خاندان کے لحاظ سے معین و مشخص کرتی ھے، یھاں ھم شیعہ اور اھل سنت کی جامع روایی سے سات روایت نقل کریں گے لیکن ان روایات کے ذکر کرنے سے پھلے مناسب ھے کہ ایک اھم نکتہ کی طرف نشاندھی کردی جائے تا کہ جب کوئی محقق اور منصف مزاج شخص اس میں غور و خوض کرے تو مہدی موعود(علیہ السلام) نیز ان کے نام و نسب کے بارے میں کسی طرح کا ابھام باقی نہ رھے اور اسی سابقہ معیار پر کہ جسے ”مہدی“ کی شناخت کے لئے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے بیان کیا ھے اکتفا کریں گے۔

تاریخی یاد دھانی؛ امت مسلمہ کی تاریخ پر نظر کرنے سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ حکومتی ادارے اپنے آغاز سے ھی عترت رسول کو حکومت و اقتدار سے محروم کرنے کے مسلسل درپے تھے اور یہ مظالم اس ظلم و بربریت کے ھے جو اموی اور عباسی حکام نے پیغمبر کی ذریہ طیبہ کے حق میں روا رکھے تھے۔ ایسی صورت میں یہ چیز فطری ھے کہ احادیث وروایات کے نصوص جو بارہ اماموں کے بارے میں وارد ھوئی ھیں بالکل سے نایاب ھوجائیں اور حکام وقت کے ایماء و اشارہ پر یہ احادیث کتابوں کے صفحہ سے حذف ھوجائیں یھاں تک کہ صحرائے کربلا کی ریگ زار زمین خامس آل عبا کے خون سے رنگین ھوجائے، اور بنیادی طورپر حضرت بتول کی نسل کا خاتمہ ھوجائے۔

معقول نھیں ھے کہ ظالم حکام حضرت مہدی(علیہ السلام) اور امام حسین(علیہ السلام) کی نویں ذریت کے تعیین کے حوالے سے احادیث کے نقل کرنے اور اس کے لکھنے کی اجازت دیں اور اس طرح سے اپنی ذلت خواری، نفرت و بیزاری کے اسباب فراھم کریں اور نتیجہ کے طور پر ان کی شکست کو یقینی بنائیں اس دوران بہت کم روایتیں باقی رہ گیں جو ان کی نظروں سے اوجھل ھوگئیں اور وہ حذف اور نابود ھونے سے محفوظ رہ گئیں؛ لیکن حیرت انگیز بات یہ ھے کہ ان تمام سختیوں اور مخالفت کے باوجود ان روایات میں سے جو باقی بچ گئیں ھیں وہ، نور خورشید کے مانند روشن و نمایاں ھیں۔

ھاں! عرب شاعر کے بقول،

اگر روز بودن ھم نیاز بہ دلیل داشتہ باشد

دیگر ھیچ مطلبی صحیح شمردہ نخواہد بود



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 next