امام مہدی(علیہ السلام) کے خاندان کی معرفت کے بارے میں گفتگو



کلینی کہتے ھیں : محمد ابن یحییٰ محمد ابن حسن صفّار سے اور وہ احمد ابن ابو عبداللہ اور وہ ابو ھاشم سے نقل کرتے ھیں کہ ابو ھاشم نے اسی حدیث کے مانند ھم سے حدیث نقل کیا ھے۔

 Ù…حمد ابن یحییٰ کہتے ھیں کہ:میں Ù†Û’ محمد ابن حسن سے کھا: اے ابو جعفر میں چاہتا تھا کہ یہ خبر احمد ابن ابو عبداللہ Ú©Û’ علاوہ طریقہ سے Ú¾Ù… تک پھونچی اس Ù†Û’ کھا: احمد ابن ابو عبداللہ Ù†Û’ ”حیرت“ سے دس سال قبل مجھ سے یہ حدیث بیان Ú©ÛŒ Ú¾Û’[93]

”حیرت“ سے مراد ۲۶۰ھ میں امام مہدی(علیہ السلام) کی غیبت ھے جو کہ امام حسن عسکری(علیہ السلام) کا سال وفات بھی ھے محمد ابن یحییٰ کا قول احمد ابن ابو عبداللہ برقی کے لئے خدشے اور سلب اعتماد کا باعث نھیں بن سکتا۔ کیونکہ سبھی اسے وثاقت کے ساتھ پہچانتے ھیں،گویا محمد ابن یحییٰ کی تمنا تھی اور جس فرد نے صفار سے یہ حدیث بیان کی ھے امام حسن عسکری یا امام ھادی(علیھما السلام) کی حیات ھی میں مر چکا تھا۔ جبکہ ابن ابوعبداللہ برقی ۲۷۴ھیا۲۸۰ھ تک زندہ رھا ھے اور اس کے آرزو کی دلیل یہ ھے کہ اگر اس زمانے میں برقی اس حدیث کو روایت کرتا تو اس کی روایت آئندہ کے بارے میں پیشن گوئی شمار ھوتی کہ جو بعد میں بعینہ وجود میں آئی اور یہ اعجاز کے عنوان سے سمجھی جاتی کہ جس کے اثبات کے لئے خبر کے مشھور ھونے کی ضرورت نھیں ھے، لیکن دوران گفتگو صفار کا جواب ملاحظہ کیا کہ شیخ جلیل القدر برقی نے اس حدیث کو عصر غیبت کے آغاز سے دس سال پھلے روایت کیا ھے۔

یہ بات کسی پر مخفی نھیں ھے کہ ایک غیر موثق راوی اگر کسی ایسے حادثہ کی خبر دے جو ابھی واقع نھیں ھوا ھے تو اس کی بات قبول کرنے کے لئے ضعیف راوی کے شرائط سے زیادہ یا اس کی دی گئی خبر کے متحقق ھونے کے لئے مزید شرائط کی ضرورت نھیں ھے، کیونکہ یھی اس کی صداقت کی علامت ھے،خواہ رجالی کتابوں میں توثیق نہ ھوئی ھو[94]

اسی حدیث کے مانند دوسری حدیثیں بھی ھیں جسے کلینی(علیہ الرحمہ) اور صدوق (علیہ الرحمہ) نے صحیح سند کے ساتھ آبان ابن عیاش سے انھوں نے سلیم ابن قیس ھلالی سے انھوں نے عبداللہ ابن جعفر طیّار سے انھوں نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے نقل کیا ھے کہ امام علی(علیہ السلام) کا نام اس کے بعد امام حسن(علیہ السلام) اس کے بعد امام حسین(علیہ السلام) اس کے بعد علی ابن الحسین(علیہ السلام) اس کے بعد امام محمد باقر(علیہ السلام) کا نام ذکر کیا ھے اور اضافہ کیا ھے؛ بارہ اماموں کی تکمیل کرنے والے، امام حسین(علیہ السلام) کی ذریت سے نو/۹،افراد ھیں[95]

 Ø§ÙˆØ± آبان ابن عیاش کا ضعیف ھونا یھاں پر کوئی اعتراض یا مشکل ایجاد نھیں کرسکتا،کیونکہ ایسے حادثہ Ú©ÛŒ خبر دی Ú¾Û’ کہ جو ان Ú©ÛŒ وفات Ú©Û’ برسوں بعد ان Ú©ÛŒ دی ھوئی اخبار Ú©Û’ مطابق وقوع پذیر ھوئی Ú¾Û’Û”

اکمال الدین میں اس طرح کی بہت زیادہ روایات پائی جاتی ھیں کہ بعض اھل خبرہ (جو اس فن میں مھارت رکھتے ھیں) اور ماھر افراد کے علاوہ لوگوں نے ضعف سندکے بھانہ سے اسے غیر معتبر مانا ھے، جبکہ ضعیف راویوں کا منحصر ھونا ان افرادمیں ھے جو حلقہ امامت کی تکمیل سے برسوں پھلے انتقال کرچکے ھیں اور یہ اعجاز بارھویں امام کی غیبت کی اکثر اخبارپر منطبق ھے اور خود شیخ صدوق نے اس کی طرف اشارہ کیا ھے وہ کہتے ھیں:

ائمہ معصومین(ع)نے امام مہدی(علیہ السلام) کی غیبت اور اس کے واقع ھونے کے بارے میں اپنے شیعوں کو وضاحت کے ساتھ بتایا تھا۔ اور یہ خبریں زمانہ غیبت سے تقریباً دو سو سال پھلے تحریروں اور حدیثوں کی کتابوں میں لکھی گئی اور درج کی گئی ھیں، اس طرح کا دعوی کیا جاسکتا ھے کہ کوئی بھی ائمہ معصومین(ع)کے اصحاب اور شیعوں میں سے نھیں تھا، مگر یہ کہ بہت ساری احادیث اور اخبار کو اپنے روایتوں کے درمیان لکھا، وہ کتابیں جسے ھم اصول (اربعمائة) کے نام سے جانتے ھیںا ور عصر غیبت کے برسوں پھلے شیعوں کے پاس محفوظ تھی، میں نے اس کتاب میں،جو کچھ ”غیبت“ کے باب میں وارد ھوا ھے اور ھم تک پھونچا ھے، اس کو ایک خاص موقع و مناسبت سے ذکر کیا ھے۔

اس بنا پر، ان کتابوں کے مولفین کا کام چند حال سے خارج نھیں ھے، یا انھیں علم غیب تھا کہ بعد میں حجت خدا کی غیبت واقع ھوگی اور اسے اپنی کتابوں میں تحریر کیا کہ اھل خرد ایسے احتمال کو کبھی قبول نھیں کریں گے یا زمان ومکان اور آراء و نظریات کے اختلاف کے باوجود سب کے سب جھوٹے دعویدار ھوگئے، لیکن اتفاق سے ان کی جھوٹی خبر واقع کے مطابق ھوگئی، یہ احتمال بھی علی القاعدہ محال ھے۔ تیسرا احتمال یہ ھے کہ ان لوگوں نے ”غیبت“ کے واقع ھونے کی خبر اپنے ائمہ سے (کہ جو رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی حدیثوں اور وصیتوں کے محافظ کہ من جملہ اس میں غیبت کا مسئلہ بھی ھے) دریافت کیا ھے اور اسے اپنی کتابوں میں ثبت اور اپنے ”اصول“ میں تدوین کرکے تحفظ کیا[96]

قابل ذکر بات ھے کہ شیخ صدوق کے مورد اشارہ اصو ل ان کے نزدیک ان کے تالیف کرنے والے سے قطعی طور پر منسوب ھیں، کتاب اکمال الدین جس طرح آج ھمارے لئے صدوق کی طرف قطعی الانتساب ھے اور اخبار غیبت کی اسناد کی ابتدامیں فرض ضعیف ان کے باوجود یہ ضعف اخبار کے صحیح ھونے کی صورت میں بلاواسطہ کتب اصول سے نقل ھونے کے بعد کوئی خدشہ وارد نھیں ھوتا اس حال میں، ھم اس باب میں، شیعوں کی صد درصد صحیح اخبار کے سوا یا ان افراد کی اخبار کے علاوہ جو غیبت سے پھلے خبر دے چکے ھیں، خواہ توثیق نہ بھی ھوئی ھو۔ دوسری روایتوں کی طرف احتیاج نھیں رکھتے ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 next