حقوق نسواں کے دفاع کيلئے لازمي اصول



٦۔ خواتين کي تعليم وتربيت کو اہميت دينا

ايک اورمسئلہ خواتين کي تعليم و تربيت کو اہميت دينا ہے ۔ميں نے بارہا اس مسئلے پر بہت تاکيد کي ہے ۔ خوشي کي بات يہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے ميں خواتين کي تعليم وتربيت ايک بہت عام اور رائج مسئلہ ہے ۔ ليکن ان سب کے باوجود آج بھي بہت سے گھرانے ايسے ہيں جو تعليم نسواں کے خلاف ہيں اور اپني لڑکيوں کو تحصيل علم سے منع کرتے ہيں ۔ ايک زمانہ وہ تھا کہ جب تعليمي ماحول وفضا غير محفوظ اور خراب تھي ليکن آج الحمد للہ اسلامي حکومت کا دور دورہ ہے ،آج کا معاشرہ ويسا نہيںہے ۔لہٰذا ان گھرانوں کو چاہيے کہ وہ اپني لڑکيوں کوتحصيل علم کي اجازت ديں تاکہ وہ درس حاصل کريں، مطالعہ کريں،کتاب پڑھيں، ديني اور انساني معارف اورلازمي تعليمات سے آشنا ہوں ، ان کي فکري صلاحيتيں پروان چڑھيں اور اُن کے ذہن قدرت حاصل کریں ۔ يہ کام بہت لازمي ہے اور اسے ہر صورت ميں انجام پاناچاہيے ۔

٧۔ حقوقِ نسواں سے تجاوز کرنے والوں سے قانوني کاروائي

حقوق ِ نسواں کے دفاع کا آخري نکتہ يہ ہے کہ معاشرہ قانوني اوراخلاقي دونوں لحاظ سے خواتين پر تجاوز اور ظلم کرنے کو اپنا حق سمجھنے والے (مردوںاور عورتوں ) کي سخت گرفت کرے، اُن کے خلاف قانوني کاروائي کرے اور قانون بھي اس سلسلے ميں سخت قسم کي سزاوں کو معين کرے ۔

ايک بار پھر آپ کي خدمت ميں عرض کروں کہ مغربي ممالک اپنے ان تمام بلند وبانگ نعروں کے باوجود اپنے معاشرے کي عورت کو ابھي تک محفوظ نہيں بناسکے ہيں ۔يعني ابھي تک بہت سي ايسي خواتين ہيں جو اپنے گھروں ميںاپنے شوہروں سے زدوکوب کا نشانہ بنتي ہيں اور بہت سي لڑکياں اپنے باپ کے ہاتھوں زخمي ہوتي ہيں ۔ اس بارے ميں اعدادو شمارکمرشکن اور وحشت ناک ہيں ۔ اس کے علاوہ وہاں ايک اورچيز موجود ہے اور وہ ہے ’’قتل نفس‘‘ وہ لوگ بہت آساني سے قتل کرتے اور خون بہاتے ہيں ۔ قتل کرنے کي وہ قباحت وبرائي جو اسلامي ماحول ومعاشرے ميں موجود ہے، اُن کے ماحول و معاشروں ميں کہ جہاں انہيں معرفت الٰہي کي خوشبو بھي نصيب نہيں ہوئي ہے، موجود نہيں ہے ۔ خواتين کا قتل و غارت اُن بہت ہي قبيح اور نفرت انگيز برائيوں سے تعلق رکھتا ہے کہ جو آج مغربي ممالک بالخصوص بعض ممالک مثلاً امريکا ميں رائج ہے ۔ خوشبختي سے يہ تمام چيزيں ہمارے ملک ميںاُس شدت اور آب وتاب سے موجود نہيں ہيں اور استثنائي مواقع کے سوا يہ کہيں اور نظر نہيں آتي ہيں ۔ بہرحال خواتين کي نسبت ہر ظلم و ستم اور جسماني تعرض وتجاوز کے خلاف سخت قانوني کاروائي کي جاني چاہیے تاکہ اسلامي معاشرہ اُس مطلوبہ درجے تک پہنچ سکے کہ جسے اسلام چاہتا ہے ۔

اگر کوئي ملک اپنے معاشرے کي خواتين کو اسلامي تعليمات کے سائے ميں اسلامي معارف سے آشنا کرے تو مجھے اس ميں کوئي شک و ترديد نہيں ہے کہ ملکي ترقي و پيشرفت ، دُگني اورچند برابرہوجائے گي۔ اگر خواتين اپنے وظائف و ذمے داريوں کي سنگيني کا احساس کرتے ہوئے زندگي کے کسي شعبے اور ميدان ميں قدم رکھيں تو خود اُس شعبے کي ترقي چند برابر ہوجائے گي۔ مختلف شعبہ ہائے حيات ميں خواتين کي موجودگي اور اُن کے حاضر ہونے کي خصوصيت يہ ہے کہ جب بھي ايک عورت ميدان ميں قدم رکھتي ہے تو اس کا شوہر اوراسکے بچے بھي اس کے ساتھ اسي ميدان ميں قدم رکھتے ہيں ۔ليکن مرد کا کسي ميدان عمل ميں حاضر ہونا يہ معني نہيں رکھتا بخلاف عورت کے ۔ عورت جو گھر کي جان اورگھر کي روح رواں ہے، جب بھي ايک ميدان ميں قدم رکھتي ہے تو درحقيقت اپنے پورے گھر کو اُس ميدان ميں لے آتي ہے ۔اسي ليے مختلف شعبہ ہائے زندگي ميں خواتين کا فعال وجود بہت اہميت کا حامل ہے ۔ ١

ايک اہم نکتہ!

وہ اہم نکتہ کہ جسے ميں آپ کي خدمت ميں عرض کرنا چاہتا ہوں يہ ہے کہ خواتين کي مشکلات نے دراصل تاريخي اور قديمي ظلم وستم سے جنم لياہے ۔اگر آج ايک مرد اپني بيوي سے بہت نزاکت،اخلاق اورتوجہ سے پيش آئے توممکن ہے کہ وہ اپني زندگي اور گھر کي فضا ميں اپني بيوي کے ساتھ معاشرت ميں اُس پر ظلم نہ کرے ليکن اگر مرد اس سلسلے ميں اخلاق، توجہ ، سنجيدگي اورتقويٰ کي رعايت نہ کرے تو اِس کا لازمي نتيجہ بيوي پر ظلم کي صورت ميں نکلے گا۔ مثلاًايک عالم وفاضل اورتعليم يافتہ عورت کا شوہر اَن پڑھ ہو تو يہ اَن پڑھ شوہر اپني عالمہ و فاضلہ بيوي پر ظلم کرے گا۔ بہت سي ايسي مثاليں ہيں کہ جہاں بيوي نے ڈاکٹريٹ کيا ہوا ہے اور ايک پڑھي لکھي خاتون ہے اور اُس کاشوہر اَن پڑھ ہے(يا کم تعليم يافتہ ہے) اور وہ گھر ميں اپني بيوي پرظلم کرتا ہے ۔ ميري نظر ميں اس مسئلے کي طرف بہت زيادہ توجہ دينے کي ضرورت ہے واِلّا بہت سے اجتماعي مسائل خود بخود حل ہوجاتے ہيں ۔ ليکن ميں يہ بھي نہيں کہتا ہوں کہ ان مسائل کے حل کيلئے اقدامات نہيں کرنے چاہئيں اور انہيں اُن کے حال پر چھوڑ ديا جائے کہ يہ خود بخود حل ہوجائيں، ہرگز نہيں ۔ ميري مراد يہ ہے کہ مسائل پر توجہ دينے اور انہيں حل کرنے کي رفتار اورطريقہ کار کو روزبروز بہتري کي طرف گامزن ہوناچاہيے ۔ جيسا کہ آپ ديکھ رہے ہيں کہ آج کل قضاوت اورقاضي بننے کے سلسلے ميں حوزہ ہائے علميہ ميں سنجيدہ بحث جاري ہے اور مختلف حضرات اس ميں شريک ہيں ۔

--------

١ اکتوبر ١٩٩٧ ميں تہران کے آزادي جيم خانے ميں خواتين کي ايک بڑي کانفرنس سے خطاب



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 next