حقوق نسواں کے دفاع کيلئے لازمي اصول



اسلامي انقلاب کي کاميابي کے بعد خواتين کے حقوق کے دفاع ميں بہت زيادہ تيزي آئي ہے ۔ حقيقت تو يہ ہے کہ انقلاب کے بعد ہي ايراني عورت کي تکريم و تجليل کي گئي ہے اور اِس تجليل اورعظمت کي بيان کرنے والي سب سے پہلي ہستي حضرت امام خميني۲ کي تھي کہ جو اپنے پورے وجود کے ساتھ مسلمان اور ايراني خواتين کي اہميت و احترام کے قائل تھے ۔ اُن کے اِس تفکر اور اورنگاہ کي وجہ سے ملک کي خواتين کو اسلامي انقلاب ميں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ درحقيقت اگر خواتين ايراني قوم کي اس انقلابي تحريک ميں شامل نہيں ہوتيں تو اِس بات کا زيادہ احتمال تھا کہ يہ انقلاب اِس شکل ميں کاميابي سے ہمکنار نہيں ہوتا يا سرے سے ہي کامياب نہيں ہوتا، يا پھر اُسے بڑي بڑي مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا۔ اِس بنائ پر خواتين نے انقلاب کيلئے مشکل کشائي کا کام انجام ديا ہے ۔ جنگ ميں بھي خواتين نے يہي کردار ادا کيا اورانقلاب کے ديگر مسائل ميں بھي ابھي تک اِسي طرح ہوتا رہا ہے ۔ بنابرايں،حقوق نسواں کيلئے بہت زيادہ کوششيں کي گئي ہيں ليکن اس کے باوجود خواتين کے مسائل کے حل ، حقوق کے اثبات، اُن پر ہونے والے ظلم کے خاتمے اور اُن کي فعاليت کي زمين ہموار کرنے کيلئے لازمي ہے کہ وسيع پيمانے پر ثقافتي کام انجام پانے چاہئيں ۔ ميں آج اس نيت سے يہ گفتگو کررہا ہوں تاکہ اس ثقافتي ماحول اور فضا کو وجود ميں لانے ميں مدد ہوسکے ۔ اگر معاشرے کي ثقافتي فضا خواتين کے مسائل کے بارے ميں شفاف ہوجائے اور اسلامي احکام اورقرآني تعليمات اِس بارے ميں واضح ہوجائيں تو يہ راستہ ہموار ہوجائے گا اوريوں ہماري خواتين ايک عورت کے شايستہ مقام اور اپني غايت تک پہنچ سکيں گي۔ اگرچہ کہ يہ بحث و گفتگو ہے، سخن ہے، ايک بات اپنے کہے جانے کے مراحل سے گزر رہي ہے ليکن در حقيقت اپنے اِسي مرحلے ميں عمل بھي ہے ۔ اس ليے کہ يہ بحث و گفتگو معاشرے کي ثقافتي فضا کو شفاف اوراذہان کو روشن کردے گي۔

 

حقوقِ نسواں سے متعلق چند اہم ترين سوالات

ہم ان گزشتہ چند سالوں ميں خواتين کے مسائل کے بارے ميں ملک کي فکري اورثقافتي فضا ميں قابل ستائش کاموں اور جدوجہد کا مشاہدہ کررہے ہيں ۔ ليکن يہاں ايک بنيادي نکتے کي طرف اشارہ ضروري ہے اور وہ يہ ہے کہ جب ہم خواتين کے حقوق يا اُن کے کمال و ترقي، اُن سے ظلم کے خاتمے اور خود خواتين کے بارے ميں بحث کرتے ہيں تو ان تمام گفتگو سے ہمارا کيا ہدف ومقصد ہوتا ہے؟ يہ ايک ايسا سوال ہے کہ جس کا جواب ہر صورت ميں ديا جانا چاہيے ۔

دوسرا سوال يہ ہے کہ معاشرے ميںخواتين کو اُن کے حقيقي مقام و منزلت دلانے کيلئے ہميں کون سے شعار اور نعروں سے استفادہ کرنا چاہيے اوراس ہدف تک رسائي کيلئے ہم کون سے وسائل کو بروئے کار لائيں؟ چونکہ آج مغربي ممالک اور اسي طرح اُن ممالک ميں جو مغربي ثقافت زدہ ہيں يا اُنہي کي بتائي ہوئي ثقافتي راہ پر گامزن اور اُس کے زير سايہ زندگي بسر کررہے ہيں، حقوق نسواںنامي تحريک وجود رکھتي ہے اور وہاں بھي خواتين کي باتيں، فيمين ازم (Feminism) اور حقوق زن کے دفاع کي نيت سے ايک بحث وگفتگو کا سلسلہ جاري ہے ۔ کيا آج جو ہم ايران ميں بيان کررہے ہيں يہ سب وہي ہے ؟ کيا اُس جيسا ہے يا اُس سے بالکل مختلف ہے؟چنانچہ اس مسئلے کيلئے اس سنجيدہ سوال کو بيان کيا جانا چاہيے نيز لازمي ہے کہ اُس کا جواب بھي اُسي طرح سنجيدگي سے ديا جائے ۔ ميں آج اِس سلسلے ميں تھوڑي بہت گفتگو کروں گا اوراس بارے ميں اسلام کي نظر کو بطور خلاصہ آپ کي خدمت ميں عرض کروں گا۔

خواتين کے اپنے نقطہ مطلوب تک پہنچنے کيلئے ثقافتي اورخواتين کے حقوق کي جدوجہد کيلئے اجتماعي اورانفرادي لحاظ سے دو ہدف تصور کيے جاسکتے ہيں ۔

 

١۔ ہدف، انساني اوراسلامي کمال تک عورت کي رسائي ہو

الف: پہلا ہدف

ايک ہدف يہ ہے کہ ہم عورت کے اُس کے کمال تک پہنچنے کيلئے خود اپنے وجود کو بروئے کار لائيں، جدوجہد کريں، موانع سے مقابلہ کريں، قلم اٹھائيں اور گفتگو کريں ۔ يعني عورت معاشرے ميں اولاً اپنے انساني اور حقيقي حق کو پائے، ثانياً اُس کي استعداد و صلاحيتيں پروان چڑھيں، وہ اپنے حقيقي اور انساني رشدکو حاصل کرے، نتيجے ميں اپنے انساني کمال تک پہنچے اور معاشرے ميں ايک انسان کامل کي صورت ميں ظاہر ہو ۔ايک ايسا انسان جو اپنے معاشرے اور عالم بشريت کي ترقي و بہبود کيلئے قدم اٹھائے اوراپني محدود توانائي کو بروئے کار لاتے ہوئے اپني اس دنيا کو خوبصورت جنت اور بہشت بريں ميں تبديل کردے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 next