حقوق نسواں کے دفاع کيلئے لازمي اصول



مشاغل اورملازمت کامسئلہ بالکل جدا ہے ليکن يہ عورت کا پہلے درجے کا مسئلہ نہيں ہے ۔ اگرچہ کہ اسلام خواتين کے مشاغل اورديگر وظائف اورفعاليت کي راہ ميں مانع نہيں ہے مگر چند استثنائي مقامات پر کہ جن ميں سے بعض پر فقہا متفق القول ہيں اور بعض کے بارے ميں اُن کے درميان علمي اختلاف موجود ہے کہ ان تمام مسائل کے بارے ميں تحقيق کي اشدضرورت ہے ۔ ليکن عورت کااصلي مسئلہ يہ نہيں ہے کہ وہ کوئي ملازمت ياکام کرتي ہے يا نہيں بلکہ اُس کے اصلي اوربنيادي مسائل يہ ہيں جنہيں آج مغرب ميں يکسر فراموش کرديا گيا ہے، جو مغرب ميں دم توڑ گئے ہيں اوروہ اُس کے آرام وسکون ،امن و امان کے احساس ، اُس کي صلاحيتوں کے پروان چڑھنے کے امکانات کي فراہمي ، اپنے باپ او رشوہر کے گھر سميت معاشرے ميں اس پر ظلم نہ ہونے وغيرہ جيسے اہم ترين مسائل ہيں لہٰذا جو افراد خواتين کے سلسلے ميں کام کررہے ہيں انہيںچاہيے کہ ان تمام مسائل کے حل کيلئے بھي اقدامات کريں ۔

 

 

          تيسري فصل

حقوق نسواں کے دفاع کيلئے بنيادي نکات چند اساسي نکات کو اپني توجہ کا مرکز بنايئے کہ جنہيں ميں آپ کي خدمت ميں عرض کر رہا ہوں ۔

١۔معنوي اوراخلاقي امور کي طرف توجہ

پہلا نکتہ:

سب سے پہلي بات تو يہ کہ معنوي اوراخلاقي لحاظ سے خواتين کے فکري ارتقا اوررشد کا نکتہ خود خواتين کے درميان توجہ کا مرکز قرارپائے اور خود خواتين سب سے زيادہ اس مسئلے کے بارے ميں غوروفکر کريں ۔ انہيں چاہيے کہ اسلامي معارف، تعليمات ، مطالعہ اورزندگي کے بنيادي مسائل کي طرف توجہ ديں ۔ مغرب کي غلط تربيت اس بات کا باعث بني ہے کہ اس ملک ميں طاغوتي حکومت کے زمانے ميں خواتين کو بيہودہ قسم کي عياشي، عيش پرستي، خودنمائي اور ہر قسم کي قيد و شرط سے آزاد زينت و آرائش اوراپنے وجود اورجسم کو ہر ذريعے سے نامحرم مردوں کيلئے قابل توجہ بنانے کا موقع ملا کہ يہ سب معاشر ے پر مردانہ حاکميت کي نشانياں ہيں ۔ مغرب ميں مردانہ حاکميت کي ايک نشاني يہ بھي ہے کہ عورت کو صرف مرد کيلئے استعمال کيا جاتاہے، اسي ليے کہتے ہيں کہ عورت زينت و آرائش کرے تاکہ مرد اُس کے وجود ميں لذت حاصل کرے ! يہ مردانہ حاکميت کي واضح دليل ہے ۔ يہ عورت کي آزادي نہيں درحقيقت مرد کي آزادي ہے ۔ يہ لوگ چاہتے ہيں کہ مرد آزاد رہے خواہ وہ آنکھوں کے ذريعے سے ہي لذت حاصل کيوں نہ کرے ۔يہي وجہ ہے کہ عورت کو مرد کے سامنے بے پردگي ، بے حجابي، زينت و آرائش اورہر و سيلے کے ذريعے اپنے وجود و بدن کو نماياں اورقابل توجہ بنانے کيلئے شوق ورغبت دلاتے ہيں ۔ البتہ مرد کي يہ خود خواہي صرف مذہبي معاشروں ہي سے مخصوص نہيں ہے بلکہ قديم ايام ميں بہت سے مرد اس خود خواہي ميں مبتلا تھے اور آج بھي ہيں جبکہ مغربي افراد اس (غير انساني اور) جاہلانہ فکر کا اعلي ترين مظہر ہيں ۔ لہٰذا عورت کے علم ومعرفت و آگاہي وشعور، کسب معلومات واسلامي تعليمات کے حصول کيلئے اقدام کرنے کا مسئلہ خود خواتين کے درميان نہايت سنجيدگي کے ساتھ زير غور آنا چاہيے اورلازمي ہے کہ اُسے اہميت دي جائے ۔

دوسرا نکتہ:

دوسري بات يہ کہ کچھ قوانين کي اصلاح کي ضرورت ہے ۔ مرد يا عورت سے سلوک و برتاو اورمعاملے کے بعض قوا نين کي اصلاح کي جاني چاہيے ۔ لہٰذا اس شعبے کے ماہرين کو چاہيے کہ مطالعہ کريں، تحقيق کريں اور قوانين کي اصلاح کريں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 next