حقوق نسواں کے دفاع کيلئے لازمي اصول



١ خطبہ نکاح 25/12/1996 ٢ خطبہ نکاح 22/7/1997 ٣ خطبہ نکاح 13/4/1998

بيوي بھي اپني روزمرہ کي ہزاروں جھميلوں والي زنانہ زندگي ميں (صبح ناشتے کي تياري، بچوں کو اسکول کيلئے تيار کرنے، گھر کو سميٹنے اور صفائي ستھرائي ،دوپہر کے کھانے کي تياري، بچوں کي اسکول سے آمد اور انہيں دوپہر کا کھانا کھلانے ، سلانے ، نماز ظہر وعصر، شام کي چائے، شوہر کي آمد اور رات کے کھانے کي فکر جيسي ديگر) دسيوں مشکلات اور مسائل کا سامنا کرتي ہے ۔ خواہ وہ گھر سے باہر کام ميں مصروف ہو اور مختلف قسم کي سياسي اور اجتماعي فعاليت انجام دے رہي ہو يا گھر کي چار ديواري ميں گھريلو کام کاج ميں عرق جبيں بہار ہي ہو کہ اس کے اندرون خانہ کام کي زحمت و سختي اور اہميت گھر سے باہر اُس کي فعاليت سے کسي بھي طرح کم نہيں ہے !

ايک صنف نازک اپني لطيف و ظريف روح کے ساتھ جب ان مشکلات کا سامنا کرتي ہے یہ تو اُسے پہلے سے زيادہ آرام و سکون اور ايک مطمئن شخص پر اعتماد کرنے کي ضرورت ہوتي ہے، ايسا شخص کون ہوسکتا ہے؟ يہ اُس کے وفادار شوہر کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے! ٢

انسان کوئي گاڑي يا مشين تو نہيں ہے ، انسان روح اور جسم کا مرکب ہے ، وہ معنويت کا طالب ہے، وہ ہمدردي، مہرباني و فداکاري کے جذبات و احساسات کا نام ہے اور وہ زندگي کي کڑي دھوپ ميں آرام و سکون کا متلاشي ہے اور اُسے آرام و سکون صرف گھر کي ہي فضا ميں ميسر آسکتا ہے ۔ ٣

گھر کے ماحول کو آرام دہ ہونا چاہيے ۔ مياں بيوي ميں ايک دوسرے کيلئے موجود ہمدردي اور ايثار ومحبت کے يہ احساسات اُن کے اندروني سکون ميں اُن کے مددگار ثابت ہوتے ہيں ۔ اس آرام و سکون کا ہرگز يہ مطلب نہيں ہے کہ انسان اپنے کام کاج کو متوقف اور فعاليت کو ترک کردے! نہيں، کام کاج اور فعاليت ضروري اور بہت اچھي چيز ہے ۔ آرام وسکون کا تعلق دراصل انساني زندگي کي مشکلات اور مسائل سے ہے ۔

-----------

١ خطبہ نکاح 28/8/2002 ٢ حوالہ سابق ٣ خطبہ نکاح 8/2/1989

انسان کبھي کبھي اپني زندگي ميں پريشان ہوجاتا ہے تو اُس کي بيوي يا شوہر اُسے سکون ديتا ہے ۔ يہ سب اُسي صورت ميں ممکن ہے کہ جب گھر کي فضا اور ماحول آپس کي چپقلش، لڑائي، جھگڑوں ،باہمي نااتفاقي اور مشکلات کا شکار نہ ہو ۔١

اچھے گھرکا پرسکون ماحول

ہر انسان کو خواہ مرد ہو يا عورت، اپني پوري زندگي ميں شب وروز مختلف پريشانيوں اور مشکلات کا سامنا رہتا ہے اور غير متوقع حالات وواقعات سے اس کي زندگي اضطراب کا شکار رہتي ہے ۔ يہ حادثات و واقعات انسان کو اعصابي طور پر کمزور،خستہ تن اور اس کي روح کو بوجھل اور طبيعت و مزاج کو چڑچڑا بناديتے ہيں ۔ ايسي حالت ميں جب انسان گھر کي خوشگوار فضا ميں قدم رکھتا ہے تو اُس گھر کا روح افزا ماحول اور سکون بخش نسيم اُسے توانائي بخشتي ہے اور اُسے ايک نئے دن و رات اور نئے عزم و حوصلے کے ساتھ خدمت و فعاليت انجام دينے کيلئے آمادہ و تيار کرتي ہے ۔ اسي لئے خانداني نظام زندگي يا گھرانے، انساني حيات کي تنظيم ميں بہت کليدي کردار ادا کرتے ہیں ۔ البتہ يہ بات پيش نظر رہے کہ گھر کو صحيح روش اور اچھے طريقے سے چلانا چاہيے ۔ ٢

رشتہ ازدواج کے بندھن ميں ايک دوسرے کا جيون ساتھي بننا اور گھر بسانا، مياں بيوي کيلئے زندگي کا سب سے بہترين ہديہ اور سب سے اہم ترين زمانہ ہے ۔ يہ روحاني آرام و سکون ، زندگي کي مشترکہ جدوجہد کيلئے ايک دوسرے کو دلگرمي دينے، اپنے ليے نزديک ترين غمخوار ڈھونڈھنے اور ايک دوسرے کي ڈھارس باندھنے کا ايک وسيلہ ہے کہ جو انسان کي پوري زندگي کيلئے اشد ضروري ہے ۔ ٣



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 next