حقوق نسواں کے دفاع کيلئے لازمي اصول



 

٤۔ جدوجہد کو اسلامي آئيڈيل کے مطابق ہونا چاہيے

اسلام، انساني کمال اورارتقا کا طرفدار ہے اور اس بارے ميں اسلام مرد وعورت کے درميان کسي قسم کے فرق کا قائل نہيں ہے ۔ اسلام کي نظر ميں مرد يا عورت ہو نا اہم نہيں بلکہ ان کا روحاني ارتقا اورکمال اُس کے پيش نظر ہے ۔ ايک جگہ مرد کے متعلق بات کي جاتي ہے تو دوسري جگہ خواتين کے بارے ميں، ايک جگہ خواتين کي عظمت و بزرگي کو بيان کيا جاتا ہے تو دوسرے مقام پر مرد کوسراہا جاتا ہے چونکہ دونوں پيکر بشريت کے حصے ہيں اور وجود بشري کي تکميل دونوں کے وجود سے ہے ۔ يہ دونوں موجود اپنے بشري اور خدائي جہت کے لحاظ سے آپس ميں کوئي فرق نہيں رکھتے ۔ يہي وجہ ہے کہ جب خداوند عالم اچھے يا برے انسانوں کيلئے مثال بيان کرنا چاہتا ہے تو عورت کي مثال پيش کرتاہے ۔ ’’ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً لِلَّذِينَ کَفَرُوا امرَآَتَ نُوحٍ وَّ امرَآَتَ لُوطٍ‘‘ اور جب اہل ايمان کيلئے مثال بيان کرتا ہے تو ’’امرَآَتَ فِرعَونَ‘‘ کو پيش کرتا ہے ۔ دونوں جگہ خداوند عالم نے ا چھي اور بري راہوں کي مثال ميں عورت کو ذکر کيا ہے ۔

 

مرد وعورت ہونا اہم نہيں بلکہ وظيفے کي ادائيگي اہم ہے

اسلام کيلئے مرد يا عورت ہونا اہم نہيں ہے (بلکہ اصل چيز ذمے داري اور وظيفے کي ادائيگي ہے)۔ اسلام کے نزديک اہم چيز بشري ارتقا ، اخلاق اوراستعداد وصلاحيت کا پروان چڑھنا ہے او وہ وظائف اور ذمے دارياں ہيں جو ان دونوں جنس سے مربوط ہيں، اسلام کے نزديک يہ امور اہميت رکھتے ہيں اور اِس کيلئے دونوں کي طبيعت و مزاج اورفطرت کے تقاضوں کو سمجھنے کي اشدضرورت ہے ۔ يہ اسلام ہي ہے جو مرد و عورت کي طبيعت ومزاج سے اچھي طرح واقف ہے ۔ جو چيز اسلام کے پيش نظر ہے وہ توازن اورعدالت ہے يعني تمام انسانوں سميت مرد وعورت کے درميان عدالت کي رعايت کرنا۔ اسلام مردو عورت کے درميان حقوق کي برابري کو بيان کرتا ہے ليکن بعض مقامات پر ممکن ہے کہ مردوں کے احکامات ، خواتين سے فرق رکھتے ہوں جيسا کہ مرد وعورت کي طبيعت ومزاج، بعض عادات وخصوصيات ميں ايک دوسرے سے مختلف ہيں ۔ بنابرايں ، مرد و عورت کے مابين سب سے زيادہ حقائق اور فطري مسلمات اورخاص بشري عادات و خصوصيات سے متعلق احکامات صرف اسلامي تعليمات ميں ہي موجود ہيں ۔

 

حقوق نسواں کے دفاع کي لازمي شرائط

اگر ہم آج ملک کي خواتين کے بارے ميں ايک حقيقي تحريک شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہيں تاکہ خواتين اپنے مطلوب مقام تک پہنچ سکيں تو ہميں چاہيے کہ اسلامي احکامات کو ہرصورت ميں مدنظر رکھيں اور انہي کو اپنا مرکز و محور قرار ديں ۔ ہماري روش اورطريقہ عمل کو اسلامي احکامات ہي معين کرتے ہيں ۔ اسلام ہر اُس روش اور طريقہ کار کو پسنديدگي کي نگاہ سے ديکھتا اور قبول کرتا ہے جو عقل و خرد کے اصولوں کے عين مطابق ہو ۔ اگر کسي جگہ سے کوئي تجربہ ملے تو وہ اسلام کو قبول ہے ليکن اندھي تقليد کسي بھي صورت ميں اسلام کو قبول نہيں ہے، يعني دوسروں کے تجربات اور عاقلانہ اور خردمندانہ اطوار و روش درست ہے ليکن اندھي تقليد منع ہے ۔ لہٰذا آج جو افراد ہمارے ملک ميں حقوق نسواں اور خواتين کے رشد اور اُن کي استعداد و صلاحيتوں کو پروان چڑھانے کي جدوجہد ميں مصروف ہيں انہيں چاہيے کہ وہ يہ ديکھيں کہ وہ کس ہدف کے حصول کيلئے سر گرم عمل ہيں اور انہيں اس ہدف تک رسائي کيلئے کن شعاروں ،نعروں اورمنصوبوں کو بيان کرنا چاہيے ۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 next