حقوق نسواں کے دفاع کيلئے لازمي اصول



اسلامي خواتين کا اجتماعي کردار

مختلف مسائل سے مقابلے اورميدان جنگ ميں بھي ايسا ہي ہے ۔ حضرت زينب علیھا السلام کے سامنے ايک ميدان تھا جہاں آپ نے کام کيا، حضرت زہر علیھا السلام نے بھي ايک ميدان ميں قدم رکھا ،جناب حکيمہ خاتون يا حضرت امام صادق کي خواہر نے ميدان عمل ميں قدم رکھا ۔ حضرت امام صادق نے کسي سے فرماياکہ جاو اور يہ مسئلہ ان (ميري بہن) سے پوچھو ۔ کچھ آئمہ عليہم السلام کي خواہر اورزوجات يا بعض پيغمبروں کي بيويوں نے علمي و ثقافتي ، سياسي، انقلابي،اور فوجي ميدانوں ميں قدم رکھا ہے ۔ توجہ فرمائيے ۔عورت کاعورت ہونا ان تمام ميدانوں ميں اس کي فعاليت کي راہ ميں ہرگز مانع نہيں ہوتا ليکن ان سب جگہ حجاب کاحکم ضرور موجود ہے ۔ آپ اس کي پابندي کيجئے اور مقابلے کيلئے ميدان عمل ميں قدم رکھيے ۔

٣۔گھرانے ميں شوہر و بيوي کے کردار پر زيادہ توجہ کي ضرورت

خواتين کے حقوق کے دفاع کيلئے تيسرا بنيادي اور لازمي نکتہ جو آپ کي خدمت ميں عرض کرنا چاہتا ہوں يہ ہے کہ ميري نظرميں خواتين پر ظلم ستم کے جتنے مقامات بيان کيے گئے ہيں ان ميں سب سے زيادہ ظلم گھرانے ميں ہوا ہے ۔ اس مسئلے کو آپ جتنا بيان کرسکتے ہيں،بيان کيجئے ۔ يہ جو ميں نے بيان کيا ہے کہ خواتين فلاں مقام و منصب کو حاصل کريں، يہ بعدکا مرحلہ ہے اور اتنا قابل اہميت نہيں ہے ۔ سب سے اہم مرحلہ شوہر اوربيوي کا آپس ميں ايک دوسرے سے برتاو اور کردارکا مرحلہ ہے ۔ اگر آپ ايسے قوانين وضع کرسکيں کہ جب ايک عورت اپنے شوہر کے گھر ميں ہو تو امن و سکون کا احساس کرے تو يہ ايک قابل تحسين امر ہے ۔

بيوي کيلئے امن و سکون کا ماحول فراہم کيجئے

انسان اپني بيٹي کو بہت محنت، محبت، نرمي اور والدين سے عشق کے ساتھ پروان چڑھاتا ہے اور اس کے بعد وہ لڑکي جواني کے مرحلے ميں قدم رکھتي ہے ۔ اس مرحلے ميں بھي لڑکي اپنے والدين کے گھر ميں ان کي بچي ہي شمار کي جاتي ہے، اس کے بعد اُس کے ہاتھ پيلے کرکے اُسے شوہر کے گھر بھيج ديا جاتا ہے اور اُس کے بعد وہ ايک ايسي عورت کي شکل ميں ظاہر ہوتي ہے کہ جس سے (خانداني مسائل ،تربيت اولاد اور خانہ داري جيسے مسائل سے متعلق) ہر چيز کو سمجھنے، ہر چيز کو جاننے اور ہر کام کو انجام دينے کي توقع کي جاسکتي ہے! پس اگر عورت يہاں چھوٹي سي بھي غلطي کرے تو وہ تنقيد کا نشانہ بنتي ہے! ليکن يہ نہيں ہونا چاہيے ۔ آپ ايسا کام کيجئے کہ جب ايک لڑکي شوہر کے گھر جائے تو وہ جس سن وسال ميں بھي ہو امن و سکون کا احساس کرے اور اسے يہ اطمئنان حاصل ہو کہ وہ (شوہر يا شوہر کے گھر والوں کي طرف سے) کسي بھي قسم کے ظلم وستم کا نشانہ نہيں بنے گي۔ اس نکتے کي طرف توجہ فرمائيے! اگر آپ يہ ماحول فراہم کرسکيں تو ضرور اقدام کيجئے تو ميري نظر ميں آپ نے ايک بہت بڑا قدم اٹھايا ہے ۔ يعني و ہ اپنے شوہر کے گھر ميں ناحق بات نہيں سنے يا اگر وہ کسي ظلم کا نشانہ بنے يااُس سے ناحق بات کي جائے تو اپنے حق کا دفاع کرسکے اور وہ قانوني امکانات کے ذريعے اپنے حق کو محفوظ رکھ سکے ١ اور يہ کام اتنا اہم ہے کہ ميري نظر، توجہ اورفکر کا زيادہ حصہ (ايک مسلمان عورت کيلئے) اسي ماحول کي فراہمي ميں مشغول ہے ۔ ميں يہ ديکھ رہا ہوں کہ (ہمارے معاشرے سميت ديگر اسلامي ممالک ميں ) عورت کو يہ ماحول فراہم نہيں ہوسکا ہے حتيکہ مومن و متقي افراد کے گھروں ميں بھي ايسا ماحول نہيں ہے اورموجودہ زمانے کے گھرانے بھي اس آئيڈيل ماحول سے محروم ہيں ۔

--------

١ يہاں بہت سے لوگ ان توہمات کا شکار ہيں کہ يہ کيا حق و حقوق کي رٹ لگا رکھي ہے؟! حق و حقوق تو اس وقت بات ہے جب وہ اپنے باپ کے گھر ميں ہو ۔ جب وہ شوہر کے گھر آگئي تو کون سا حق اور کيسے حقوق؟! سب کچھ ختم ہوجاتا ہے، اب اس کاجنازہ ہي اس کے شوہر کے گھر سے نکلے گا ! وغيرہ وغيرہ ۔۔۔ يہ افراد احمقوں کي جنت ميں رہتے ہيں ۔ اگر لڑکي شوہر کے گھر آجائے تو صحيح ہے کہ اس کے اپنے گھر سے متعلق کچھ حقوق ختم ہوجاتے ہيں ليکن شوہر کے گھر اس کے حقوق ميں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ جس ميں سب سے پہلے امن و سکون کا ماحول اور ناحق بات اور ظلم و ستم سے دوري وغيرہ شامل ہيں ۔ شادي کرنے سے عورت کي ذات ختم نہيں ہوجاتي بلکہ شوہر کے گھر آنے سے اُس کي شخصيت مزيد نکھر جاتي ہے اور اس کا اجتماعي روپ سامنے آتا ہے، اب وہ ايک بيوي کے روپ ميں پہلے سے زيادہ حساس وجود رکھتي ہے ۔ اپنے ميکے ، والدين اوربہن بھائيوںکو چھوڑ کر آنے والي ايک لڑکي جو اب شوہر کے ساتھ اس کے نئے گھر، نئے افراد اورنئے ماحول ميں زندگي بسر کرنا چاہتي ہے ۔ اس کے بعد وہ مزيد حساس ہوجاتي ہے کيونکہ وہ اب تربيت اولاد کے مرحلے ميں قدم رکھتي ہے ۔ غرضيکہ شادي سے عورت کا وجود ختم ہونے کے بجائے مزيد وسعت ، نکھار اور خوبصورتي اور زيبائي حاصل کرتا ہے ۔ (مترجم)

چند سال قبل ايک پي ايچ ڈي خاتون نے ہم سے شکايت کي کہ اُس کا شوہر جو زيادہ تعليم يافتہ نہيں ہے ، مجھ پر (مختلف مسائل زندگي ميں) زور و زبردستي کرتا ہے اور يہ خاتون اپنے حق کا دفاع نہيں کرسکتي ہے ۔ يہ ايک نمونہ ہے اور ايسي بہت سے مثاليں ہيں اور افسوس يہ ہے کہ ہمارے معاشرے ميں يہ چيزيں موجود ہيں ۔ اگر آپ کچھ کرسکيں تو ان تمام چيزوں کو قوانين کے ذريعے ختم کرديجئے (تاکہ خواتين کے حقوق شوہروں کے ظلم اور زبردستي کي وجہ سے ضايع نہ ہوں) ۔وہ نکتہ کے جسے ميںنے قبلاً آپ کي خدمت ميں عرض کيا کہ مرد کي بہ نسبت عورت کا جسماني لحاظ سے کمزور ہونا اس پر ظلم ہونے کا باعث بنا ہے تو اُسے معرفت اور تعليم کے ذريعے سے ايک جہت سے اور قانون کي مدد سے دوسري جہت سے مضبوط بنانا چاہيے يعني خواتين کے ہاتھ ميں اُن کے حقوق کے دفاع کے اقتدار کے وسائل دينے چاہئيں ۔

يہ وسائل ، معرفت اورتعليم کي طرف سے خواتين پر ظلم و ستم کي راہ ميں ايک طرف سے مانع بن جاتے ہيں جبکہ دوسري طرف قانون ہے جو خواتين کے حقوق اور ظلم سے اُن کي حفاظت کرتا ہے ۔ لہٰذا اگر يہ’’ دونوں طرف‘‘ خواتين کيلئے فراہم ہوجائيں تو يہ ايک قابل تحسين امر ہے ۔ آپ اپني خواتين کو تحصيل علم اور بيٹيوں کو اعليٰ تعليم کے حصول کي ترغيب دلايئے اور اعليٰ تعليمي مراکز ميں اپني بيٹيوں کے داخلے کو قانوني لحاظ سے سہل و آسان بنائيے ۔ اگر يہ چيز حاصل ہوگئي تو ميري نظر ميں تمام چيزيں حاصل ہوجائيں گي۔ مثلاً فرض کيجئے کہ موجودہ زمانے ميں ممکن ہے کہ خواتين کو اس بارے ميں فکر لاحق ہو کہ وہ ڈرائيونگ کيوں نہيں کرتيں يا ٹرک ڈرائيور کيوں نہيں بنيں؟ فلاں کام انجام کيوں نہيں ديتيں؟ ان چيزوں کي اہميت نہيں ہے اور نا ہي ان چيزوں کي قدر وقيمت ہے کہ انسان ان کيلئے جدوجہد کرے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 next