حقوق نسواں کے دفاع کيلئے لازمي اصول



آپ کي رپورٹ ميں ميں نے ديکھا ہے کہ آپ نے ملکي قانون ميں بہت سے مقامات کي نشاندہي کي ہے، ميں ان مقامات کو ذکر کرنا نہيں چاہتا ہوں کہ کون سا درست ہے اور کون سا غلط؟آپ نے رپورٹ ميں بہت سے اعتراضات ، عيوب اور نقائص کو بيان کياہے کہ جن ميں سے بعض بجا اور درست ہيں ۔ ليکن ميں نے ديکھا کہ آپ کي طرف سے پيش کيے گئے يہ اعتراضات اس طرح نہيں ہيں کہ جو ہر صورت ميں ہماري موجودہ اور رائج فقہ سے تعارض رکھتے ہوں، ايسي کوئي بات نہيں ۔ ليکن ميں نے جن اعتراضات و نکات کا مطالعہ کيا ہے اور اگر انہيں حقوقي نظر سے اچھي طرح منظم کيا جائے تو ہماري ملکي قانون ميںبغير اس کے کہ وہ ہماري رائج فقہ سے ٹکرائے،تبديلي کي جاسکتي ہے ۔ ميري نظر ميں يہ کام بہت مثبت اورمفيد ہے اور اس سلسلے ميںآپ خواتين کو کام کرنے کي ضرورت ہے اور يہ دوسرے بقيہ امور سے زيادہ اہميت کا حامل ہے ۔

خواتين کي نسبت مغربي نگاہ کے جال ميں پھنسنے سے پرہيز

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ميں کبھي کبھي يہ ديکھتا ہوں کہ وہ لوگ جو اپني زبان سے خواتين کے حقوق کي دفاع کي بات توکرتے ہيں ليکن عملاً ايسي فاش غلطيوں کا ارتکاب کرتے ہيں کہ جو کسي بھي صورت ميں خواتين کے حق ميں نہيں ہيں! يعني يہ افراد(مسلمان عورت کيلئے آئيڈيل تراشنے کيلئے) مغربي عورت کو ديکھنے لگ جاتے ہيں کہ وہ کيسي ہے اور کيا کرتي ہے تاکہ اُسے آئيڈيل کے طور پر پيش کرسکيں ۔ جبکہ حقيقت يہ ہے کہ اُن کا يہ طرزفکر، اسلامي انداز فکر سے بہت مختلف ہے جبکہ اسلامي فکر و نگاہ ان کي فکر ونگاہ سے بہت زيادہ عميق ، ترقي يافتہ، ناقابل مقايسہ اور خواتين کيلئے ہر حال ميں سودمند ہے ۔ ہميں مغربي عورت سے کچھ حاصل کرنے کي ضرورت نہيں ہے ۔

بعض افراد ہيں جو حقوق نسواں کے دفاع کے بارے ميں دفاعي حالت اختيار کرتے ہيں ۔ جب اہل مغرب ويورپ يہ کہتے ہيں کہ (يہاںمسلمان معاشروں ميں) عورت پر ظلم ہوتا ہے تو يہ لوگ يہ ثابت کرنے کيلئے کہ يہاں ہمارے ملک ميں عورت پر ظلم نہيں ہوتا، اپنے دفاع ميںبہت سے باتيں بيان کرنا اورمختلف قسم کے کام کرنا شروع کرديتے ہيں اوربہت سے ايسے امور کا تظاہر کرتے ہيں کہ جن کا خواتين پر ظلم ہونے سے کوئي تعلق نہيں ہوتا ہے ۔ فرض کيجئے کہ خواتين کي روزش سے متعلق بعض خلاف ورزياں کہ جنہيں ميں نے خودسنا ہے، بعض مقامات پر ظاہر ہوتي ہيں ۔ صحيح ہے کہ يہ خلاف ورزياں اور غلطياں ہيں ليکن اِس کا اس بات سے کوئي تعلق نہيں ہے کہ ہم يہ کہيں کہ اس کے ذريعے خواتين پر ظلم کيا جارہا ہے ۔

وہ لوگ يہ نہيں کہتے ہيں کہ اجتماعي ميدان ميں عورت ظلم کا شکار ہے ۔خواتين پر سب سے زيادہ ظلم اُس کے اپنے گھر ميں خود اُس کے شوہر کے ہاتھوں انجا م پاتا ہے اورشايد نوے فيصد سے زيادہ يہ ظلم اُس کے شوہر کي طرف سے ہوتا ہے لہٰذا اس اجتماعي مسئلے پر توجہ ديني اوراس کي اصلاح کرني چاہيے ۔بھائي ،بہن اور باپ وغيرہ کي طرف سے ہونے والا ظلم اتنا نہيں ہے اور يہ صورتحال بہت نادر ہے ۔ ہاں کچھ واقعات ہيں کہ ممکن ہے کہ بھائي،بھائي پر ظلم کرے يا اُسي طرح بھائي بہن آپ ميں اختلاف کے نتيجے ميں ايک دوسرے پر ظلم کريں اور مناسب و غير مناسب اورظالمانہ يا عادلانہ رويہ اختيار کريں ۔ليکن جو چيز سب سے زيادہ اہم ہے کہ جس کي اچھي صورت بھي کبھي کبھي خراب ہوجاتي ہے ، وہ گھر کے اندر آپس کے تعلقات اوررويہ ہے ۔ حتي کبھي کبھار يہ ديکھنے ميں بھي آتا ہے کہ ان تعلقات اوررويے کي قابل ملاحظہ صورتحال اوراچھي حالت بھي بري ،نامناسب اورظالمانہ ہوتي ہے ۔

تھوڑا سا انصاف کيجئے!

آپ پيار و محبت سے اپني نورچشم بيٹي کوپروان چڑھاتے ہيں اور پندرہ يا سولہ سال بعد اُسے اس کے شوہر کے گھر بھيج ديتے ہيں ۔ شوہر کے گھر ميں آپ کي بيٹي سے اُن کي بيٹي جيسا برتاو نہيں کيا جاتا ہے ۔ آپ جانتي ہيں کہ (ساس، بہو اورنندو بھابھي کا مسئلہ) ہمارے معاشرے کا ايک عام سا مسئلہ ہے ١ ۔ يعني آپ دوسرے کي بيٹي کو اپنے بيٹے کيلئے بيوي (اوراپني بہو بناکر لاتي ہيں توکيا آپ اپني بہوسے اپني بيٹي جيسا برتاو کرتي ہيں؟)اوروہ گھرانہ جو اپنے بيٹے کيلئے آپ کي بيٹي کو دلہن بناکر بہو کے عنوان سے اپنے گھر لے جاتا ہے ،کيا وہ بھي آپ کي بيٹي سے يہي برتاو کرتا ہے جو آپ اپني بہو سے کرتي ہيں؟ (ذرا انصاف کيجئے!) ان تمام معاشرتي مسائل کا علاج کرنا چاہيے اور يہ مرد وعورت کے آپس ميں تعلقات سے مربوط ہے ۔ اگر مياں بيوي کے تعلقات و روابط مکمل طور پر عادلانہ ،اسلامي، صحيح اورمحبت آميز ہوں تو ظلم و ناانصافي کرنے والے ايسے گھرانوں کے عمل اور برتاو کي کوئي تاثير باقي نہيں رہے گي يعني لڑکي کيلئے سسرال والوں کي طرف سے سختي اورمختلف باتوں کے تھونپے جانے کي جرآت اورموقع باقي نہيں رہے گا۔ ان سب کي بازگشت مياں بيوي کے درمياني تعلقات کي طرف ہوتي ہے جو عورت پر ظلم کي راہيں کھولتے ہيں ۔ يہ وہ نکتہ ہے کہ جسے ميں آپ خواتين کي خدمت ميں عرض کرنا چاہتا تھا۔ ١

١ ساس بہو اوربھابھي نند کے درميان گھريلو اختلافات ہمارے يہاں ايک عام مسئلہ ہے ۔ يہ فطري سي بات ہے کہ والدين اپني اولاد اوربيٹيوں کو بہت چاہتے ہيں اور بڑے پيار و محبت سے ان کي تربيت کرکے رشتہ ازدواج ميں انہيں منسلک کرتے ہيں ۔ اُن کي خواہش ہوتي ہے کہ اُن کي نورچشمي اپنے سسرال ميں بھي ويسا ہي سکھ پائے جيسا اپنے ميکے ميں پاتي تھي ۔ ليکن بہت سے گھرانے ايسے ہيں کہ جب وہ دوسرے کي بيٹي اپنے گھر ميں بہوبناکر لاتے ہيں تو وہ يہ بھول جاتے ہيں کہ يہ بہوبھي کسي گھر کا نور اورکسي ماں کے دل کا چين ہے اورخود اُن کي اپني بيٹي کسي کے گھر ميں بياہي گئي ہے ۔ چنانچہ يہ افراداس بہو سے بعض غيروں والا سلوک کرتے ہيں حتي يہ بھي بھول جاتے ہيں کہ يہ بھي ايک انسان ہے اور دھڑکتے دل اوراحساسات کي مالک ہے ۔

طعنے ،جھڑکياں او ر چبھنے والي باتيں روزانہ بہو کي خدمت ميں پيش کي جاتي ہيں اوربالفرض اگر بہو سيدھي سادي اور شريف ہو تو پلٹ کر ساس اور نندوں کو کچھ نہيں کہے گي، ساس کا پھولا منہ، بگڑاچہرہ، نندوں کي باتيں،طعنے اور گھور گھور کر ديکھنے والي آنکھيں سب نشتر کے تيروں کي طرح بہو کے دل کو زخمي کرديتے ہيں ۔ليکن يہ لوگ بھول جاتے ہيں کہ ان کي اپني بيٹي بھي کسي کي بہو ہے!

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 next