حقوق نسواں کے دفاع کيلئے لازمي اصول



اسي طرح يہ جو کہا گيا ہے کہ عورت زينت و آرائش کرکے مردوں کے سامنے نہ آئے، يہ حکم بھي بالکل صحيح ہے ۔ مغربي ثقافت بالکل اس کے برعکس ہے ۔ مغربي ثقافت اپنے معاشرے کي عورت سے يہ کہتي ہے تم اچھي طرح ميک اپ کرو، زينت و آرائش کرو! يہ ہے مغربي ثقافت، ميک اپ کي انواع و اقسام کي چيزيں ايک خوبصورتي نہ رکھنے والي عورت کو بھي مختلف قسم کے ميک اپ کيلئے اس لئے دي جاتي ہيں کہ وہ جب مرد کے سامنے جائے تو مرد اسے خوبصورتي و زيبائي ميں ديکھے اور اس کي طرف مائل ہو! جبکہ حقيقت يہ ہے کہ ايسے ميک اپ کي مصنوعي خوبصورتي کے نتيجے ميں پيدا ہونے والا ميل و رغبت چند لمحوں سے زيادہ قائم نہيں رہتاہے ۔ يعني جب يہ مرد اس عورت کے پاس آئے گا تو وہ خود ديکھے گا کہ يہ خوبصورتي حقيقي نہيں ہے ليکن مقصد يہ ہے کہ جيسے ہي اس پر نگاہ ڈالے تو اس کي تعريف کرے ! يہ چيز مغربي ثقافت ميں ايک امر مطلوب کي حيثيت رکھتي ہے ۔

حکمت اوردوسرے کلام ميں فرق

ليکن اسلامي ثقافت ميں شوہر کے علاوہ زينت وآرائش ايک امر مذموم ہے ۔لہٰذا اس کو اچھي طرح سمجھنا چاہيے اور اس ميں حکمت پوشيدہ ہے ۔ ’’ذَا لِکَ مِمَّا اَوحَيٰ اِلَيکَ رَبُّکَ مِنَ الحِکمَۃِ‘‘ ١ ( يہ وہ چيز ہے کہ جسے تمہارے رب نے تمہاري طرف حکمت کے ساتھ وحي کيا ہے)۔ آپ قرآن ميں ملاحظہ کريں کہ خداوند عالم نے پيغمبر وں سے خطاب ميں بہت جگہ حکمت کو مکرر بيان کيا ہے ۔ مثلاً حضرت لقمان کے بارے ميں چند مطلب کو ذکر کرتا ہے ۔ ’’وَلَا تَمشِ فِي الاَرضِ مَرَحًا ‘‘ ١ ( زمين پر اکڑکر مت چلو)۔ يہ وہ بيانات ہيں کہ جو حضرت لقمان اپنے بيٹے کوبطور نصيحت فرماتے ہيں ۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ’’ ذالِک مِمَّا اَوحيٰ اِلَيکَ ربُّک مِنَ الحِکمَۃِ ‘‘ ٢ ۔ حکمت کي خصوصيت يہ ہے کہ جب آپ اسکے لب و لہجے پر نگاہ ڈاليں گے تو آپ کو يہ بہت سادي اورمعمولي بات نظر آئے گي ليکن جب آپ اس ميں غوروخوص کريں گے تو اس کي گہرائي کو نہيں پاسکيںگے کہ وہ کتني عميق ہے؟ يہ ہے حکمت کي خاصيت ! توجہ فرمائيے ۔

---------

١ سورہ اسرائ/ ٣٩

حکمت اورہمارے اپنے بنائے ہوئے فلسفوں ، اہل عقل و منطق اوراُن کے استدلال کے درميان بنيادي فرق يہ ہے کہ ہم کلمات کے ظاہر کو خوبصورت بناتے ہيں کہ جب انسان اس پر نگاہ ڈالتا ہے تو اسے ايک اوقيانوس کي مانند پاتا ہے ليکن جب اُس کي گہرائي کو ديکھتا ہے تو گہرائي کو دو ملي ميٹر پاتا ہے ! ظاہر ميں ايک اوقيانوس ہے ليکن باطن ميں کچھ نہيں ۔ ليکن قرآني کلمات اور حکمتيں ايسي نہيں ہے ۔ ميرا حضرت امام خميني۲ کے بارے ميں بھي يہي تجربہ ہے ۔ لہٰذا ميں نے سب سے پہلے لفظ ’’حکيم‘‘ کو اُن کيلئے استعمال کيا ہے ۔ ميں نے ديکھا کہ حکيم جسے کہا جاتا ہے وہ ايسا ہي ہوتا ہے ۔ امام خميني۲ جب باتيں کرتے تھے تو ايسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بہت ہي سطحي اورمعمولي باتيں کررہے ہيں اوراُن کي باتيں انسان کي نظر ميں کوئي جلوہ نہيں کرتي تھيں ليکن جب انسان اس ميں غوروفکر کرتا تھا تو ديکھتا تھا کہ کتني گہري وعميق ہيں!

عورت کا اجتماعي کردار

جو کچھ قرآن و احاديث پيغمبر ۰ و اہلبيت ٴ ميں عورت کے بارے ميں بيان کيا گيا ہے وہ حکمت ہے کہ جس پر واقعاً توجہ کرني چاہيے ۔ ان تمام بيانات ميں سے ايک مسئلہ يہي حجاب اور مرد و عورت کے درميان حفاظتي وجود کا مسئلہ ہے ۔ حجاب کے ذريعے سے ہونے والي يہ حفاظت سب جگہ کے ليے نہيں ہے بلکہ خاص جگہ پر ہے ۔ فرض کيجئے کہ ايک خاتون حکومت کے اعليٰ عہدے پر فائز ہوتي ہے ۔ البتہ ميں يہ نہيں کہوں گا کہ کون سا مقام؟ کيونکہ ميں نے بطور مثال ايک مقام کو مجمل انداز سے بيان کيا ہے جو واضح نہيں ہے اور ايسي حالت ميں يہ بھي صحيح نہيں ہے کہ انسان بغير کسي وجہ سے کسي بھي حکومتي عہدے کو تنقيد کا نشانہ بنائے ۔ بہرحال اگر وہ ايک ايسے عہدے کو حاصل کرلے کہ جہاں رجوع کرنے والوں کي تعداد بہت زيادہ ہے تو اس ميں کوئي حرج نہيں ہے اور نہ ہي يہ امر عورت کي فعاليت ميں مانع بنے گا۔ اس مقام پر عورت ہزاروں مرد اور ديگر رجوع کنندگان کي حکيمانہ انداز سے پذيرائي کرے ، اُن کے مسائل کوسنے، جواب دے اور ان کے جائز حقوق کيلئے احکامات صاد رکرے ۔ اس ميں نہ کوئي محدوديت ہے اور نہ کوئي چيزمانع ہے ۔

-------------

١ سورہ اسرائ/ ٣٧ ٢ سورہ اسرائ/ ٣٩



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 next