حقوق نسواں کے دفاع کيلئے لازمي اصول



----------

١ سورئہ روم/٢١

سب سے اہم ترين چيز کہ بشر جس کامحتاج ہے، وہ آرام و سکون ہے ۔ ايک انسان کي (دنياوي) سعادت يہ ہے کہ وہ روحي طور پر تلاطم و اضطراب سے امان ميں ہو اور اس کي روح مکمل سکون ميں ہو اور يہ روحاني آرام وسکون ايک گھرانہ ہي انسان کو خواہ مرد ہو يا عورت ہو، عطا کرتاہے ۔ اس آيت کا اگلا جملہ بہت دلچسپ اورخوبصورت ہے کہ جہاں ارشاد رب العزت ہوتا ہے کہ ’’وَجَعَلَ بَينَکُم مَوَدَّۃً وَّرَحمَۃً ‘‘۔ ( اس نے تمہارے درميان مودت و رحمت کو قرار ديا ہے)۔ مياں بيوي کے درميان صحيح رابطہ، مودت و رحمت اور دوستي و مہرباني کا رابطہ ہے ،تاکہ وہ ايک دوسرے کے قريبي اور سچے دوست بنيں، ايک دوسرے پر مہربان ہوں اور ايک دوسرے سے عشق کرنے والے ہوں ۔ عشق کرنا،غصے، برہمي اور تند و تيز لب و لہجے کے ساتھ قابل قبول نہيں ہے اِسي طرح محبت کے بغير مہرباني بھي قبول نہيں ۔

 

عورت پر ہونے والے ظلم کي مختلف شکليں

ايک گھرانے کي فضا ميں شوہر اوربيوي کو عطا کي گئي خدائي فطرت اورطبيعت ومزاج يہ ہے کہ وہ دو جيون ساتھيوں کے درميان عشق محبت اورمہرباني کا رابطہ برقرارکرے ۔ يہ ہے ’’موَدَّۃً رَحمَۃً‘‘ کا معني۔ اگر پيار و محبت اور تعاون کا يہ رابطہ بدل جائے اور مرد گھر ميں صرف اپني مالکيت کا حق جتانے لگے اور بيوي کو ايک کام کرنے والے موجود اوربيوي اور اُس کي استعدادوتوانائي کو اپنے ليے قابل استفاہ بنانے کي حيثيت سے ديکھنے لگے تو يہ ظلم ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت زيادلوگ يہ ظلم کرتے ہيں ۔ گھرسے باہر کي فضا و ماحول ميں بھي ايسا ہي ہے ۔ اگر عورت تحصيل علم يا کام اورکسبِ معاش اوراپنے استراحت وآرام کيلئے امن وآمان کا ماحول نہ پائے تو يہ بھي اُس پر ظلم وستم ہے ۔ جو بھي اس ظلم کو انجام دے تواُسے اسلامي قانون اوراسلامي تعليمات کے مقابلہ اورمواخذہ کا سامنا کرناہوگا۔

------------

١ حوالہ سابق

اگر عورت کوتحصيل علم اورمعرفت حاصل کرنے کا موقع نہ ديا جائے تو اُس پر ظلم ہے يا اگر زندگي ميں خواہ ميکا ہو يا سسرال ، حالات اس طرح کے ہوں کہ وہ زيادہ کام کاج اور مختلف گھريلو ذمے داريوں کي وجہ سے اپنے اخلاق ، دين اور معرفت کي صحيح اصلاح نہ کرسکے تو يہ اموربھي ظلم ميں شامل ہيں ۔ اسي طرح عورت کااپنے ہي مال و دولت کو(خواہ اُسے کہيں سے بطور تحفہ ملے يا ميراث وتنخواہ سے اُس کے پاس آئے) اپنے ارادے اوراختيار سے استعمال نہ کرنابھي ظلم ہي کے زمرے ميں آتا ہے ۔ شادي اورجيون ساتھي کے انتخاب کے موقع پر اگرکوئي مرد شوہر کے عنوان سے اُس کے سر پرتھونپ دياجائے يعني وہ اپنے شوپر کے انتخاب ميں شامل نہ ہو اور اس کا رشتہ اُس کے اپنے ارادے، ميل اور پسند کے مطابق نہ ہو تويہ بھي عورت پر ظلم ہي تصور کيا جائے گا۔ اگر اپني اولاد کي تربيت کيلئے خواہ وہ اپنے شوہر کے گھر ميں سکونت پذير يا ہو اپنے شوہر سے جدائي ( اور طلاق) کے بعد الگ رہ رہي ہو،اپنے فرزند کواپني ممتا کي ٹھنڈي چھاوں فراہم نہ کرسکے اور نہ ہي اپنے جگر گوشے کے معصوم وجود سے استفادہ کرسکے تو يہ بھي ظلم ہي کي ايک شکل ہے ۔ اگر عورت علمي ميدان ميں پيشرفت،اختراع اورتحقيق وريسرچ اورسياسي و اجتماعي فعاليت کي استعدادوصلاحيت کي مالک ہے ليکن اسے ان صلاحيتوں سے استفادہ کرنے کا موقع فراہم نہ کياجائے اوراُس کي يہ صلاحيتيں پروان نہ چڑھيں تو يہ بھي ظلم ميں شامل ہے ۔

ممکن ہے ايک معاشرے ميں انواع واقسام کے ظلم موجود ہوں چنانچہ ان سب ظلم و ستم کو عورت سے ختم کرنا چاہيے ۔ ليکن اس کے ساتھ ساتھ مرد و عورت دونوں کي ذمے داريوں اوروظائف کو کہ يہ دونوں خاندان کي تشکيل ميں ايک دوسرے کي نسبت وظائف رکھتے ہيں ، اہميت کي نگاہ سے ديکھنا چاہيے کيونکہ مرد و عورت دونوں کي سعادت اسي ميں ہي ہے ۔ بعض افراد يہ خيال کرتے ہيں کہ مردوں کي بہ نسبت عورتوں کي مجموعي فعاليت ميں کمي کامطلب يہ ہے کہ وہ بڑے اور پرجنجال قسم کے مشاغل اورکام نہيں رکھتي ہیں ۔ نہيں جناب ! عورت کي مشکل يہ نہيں ہے ۔ حتيٰ وہ عورت کہ جو بڑے مشاغل اورکام وغيرہ ميں مصروف ہے وہي عورت، گھر کے پرسکون ماحول،ايک مہربان، محبت کرنے والے ، ايک مطمئن اورہمدردتکيے گاہ کي شکل ميں اپنے شوہر کي محتاج ہے ۔ خواتين کي روحي اور احساساتي ضرورت اور اُن کي طبيعت و مزاج يہ ہے اور اُن کي اِس ضرورت کو پوراکرنا چاہيے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 next