حقوق نسواں کے دفاع کيلئے لازمي اصول



’’فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلقَ اللّٰہِ‘‘ ١ قرآن ميں ذکر کي گئي تخليق خدا کي تبديلي يہي ہے ۔ اگر ايسا کيا توہم نے عالم ہستي کے کامل ترين نظام کو تباہ و برباد کرديا کہ جس ميں ايک جنس اِن خصوصيات اورعادات وصفات کے ساتھ اور دوسري جنس اِن خُلقيات اور خاص طبيعت ومزاج کے ساتھ ہے تاکہ دونوں ايک دوسرے کو مکمل وجود بناسکيں ۔

چوتھي بات

اس تمام گفتگو سے ميري غرض يہ تھي کہ تاريخ ميں جہالت کي وجہ سے عالم خلقت کے ان دونوں وجود، مرد وعورت کي اپني اپني خاص صفات ، عادات اورطبيعت کو خوداُس کے خاص تناظر ميں ديکھا نہيں گيا ہے لہٰذا مرد نے اپنے طاقت وقدرت کے بل بوتے ہميشہ ظلم و ستم کيا ہے اور عور ت اُن کے تاريخي ظلم کي ايک منہ بولتي تصوير ہے ۔ کيا آپ نے توجہ اور غور کيا؟! يہ مسئلہ دراصل ايک تاريخي ظلم وستم سے مقابلہ ہے لہٰذا اگر ہم نے اس مقابلے ميں عجلت ، سطحي نگاہ ، تدبُّر وتعمق کے بغير اور اس چيز کو مدنظر رکھے بغير کہ ہميں کيا کرنا چاہيے ،کام کيا تو ہمارا يہ اقدام کاميابي کو کئي سالوں عقب دھکيل دے گا، بنابرايں،بہت پختگي اور سنجيدگي کے ساتھ مگر مسلسل کام کرنے کي ضرورت ہے ۔

٢۔ اسلامي ثقافت، شرعي احکامات اوررضائے الٰہي پر توجہ

مغربي ثقافت کا ظاہري مثبت نکتہ

دوسرا نکتہ يہ ہے کہ اگر آج ہم دنيا کو دو حصوں ميںتقسيم کريں ،ايک حصہ مغربي ثقافت سے متلعق ہے جبکہ دوسراحصّہ ديگر مختلف ثقافتوں سے،توہم يہ کہہ سکتے ہيں مغربي ثقافت والي نصف دنيا ميں عورت پر نسبتاً زيادہ ظلم ہوا ہے ۔ مختلف حوالوں، ذرائع ابلاغ اورموثق ذرائع سے ملنے والي خبروں، حادثات وواقعات،اعدادوشمار، رپورٹوں اورتجزيہ وتحليل کے ذريعے ميں يہ دعويٰ کرسکتا ہوں ۔

توجہ فرمائيے کہ مغرب ميں ايک ايسا مسئلہ ہے کہ جو آنکھوں کو خيرہ کرتا ہے اور وہ يہ ہے کہ اس معاشرے ميں مرد و عورت کے درميان اُن کے اجتماعي معاملات، کردار اوربرتاو ميں کوئي فرق نہيں رکھا گيا ہے ۔ يعني جس طرح ايک جلسے يا محفل ميں ايک مرد داخل ہوتا ہے ، سلام عليک اوراحوال پرسي کرتے ہوئے اس محفل کا يک جز بن جاتا ہے، اسي طرح ايک عورت بھي آتي ہے اور اس محفل کا حصہ بن جاتي ہے ۔ چنانچہ اُ س معاشرے ميں اِس جہت سے مرد وعورت کے کردار وعمل ميں کسي قسم کا کوئي فرق اور طبقاتي يا انساني جنس کے لحاظ سے کوئي فاصلہ موجود نہيں ہے ۔ آپ نے توجہ فرمائي ! مغربي معاشرے کے اس اجتماعي سلوک اور عمل نے دنيا والوں کي آنکھوں کو خيرہ کرديا ہے ۔

----------

١ سورئہ نسائ / ١١٩

انسان جب اس ظاہري حالت کو ديکھتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ يہ تو ايک وضعِ مطلوب ہے اور سب اس وضع وحالت سے خوش ہيں ۔ حتي وہ افراد جو اپنے منطقي دلائل کي وجہ سے اس اجتماعي رفتار وسلوک کے مخالف ہيں جب اسے ديکھتے ہيں تو يہ کہتے ہيں کہ يہ کوئي اتني بري چيز نہيں ہے ! وہ ايک معاشرتي نظام ميں مرد و عورت کو دواجنبيوں کي طرح نہيں ديکھتے ہيں بلکہ ان پر بہن بھائي کي حيثيت سے نگاہ ڈالتے ہيں کہ دونوں جب ايک گھر ميں داخل ہوتے ہيں تو ايک دوسرے کو سلام کرتے ہيں،ايک دوسرے کي مزاج پرسي کرتے ہيں اور ساتھ زندگي گزارتے ہيں! مغرب ميں مردو عورت اس طرح آپس ميں زندگي بسر کرتے ہيں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 next