حقوق نسواں کے دفاع کيلئے لازمي اصول



پس آپ ديکھئے کہ يہ وہ پہلا ظلم ہے جو وہاں کي خواتين پر ہوتا ہے اور کوئي اُس کي طرف متوجہ نہيں ہے ۔ اب ايسي حالت ميں ہم آئيں اوراپنے شعاروں اورنعروں ميں ايسي چيزوں کو بيان کريں کہ جو مغربي ثقافت خواتين کے حقوق کے دفاع يا خود خواتين سے برتاو کے عنوان سے بيان کرتي ہے اور انہيں شعار اور نعروںکي حيثيت سے متعارف کراتي ہے! کيا يہ مصلحت ہے؟ ان تمام چيزوں کو آئيڈيل بناکر انہيں مسلمان معاشرے کے سامنے پيش کرنا اور اُن پر عمل کرنا ہمارے ليے کہيں سے بھي سودمند نہيں ہے ۔

اگر آپ اسلام کي نظر کو حقيقي اور گہري صورت ميں سمجھيں نہ کہ سطحي نظر کہ جو اکثراوقات غير حقيقي مطالب اور خيالات کامجموعہ ہوتي ہے، اور عورت کے بارے ميں اسلامي نظر کا لبّ لباب سمجھا اورنکالا جائے تو يہ امر سزوار ہے کہ جس کيلئے حقيقتاً جدوجہد کي جائے اور شعاربلند کيے جائيں ۔ميري خواہش ہے کہ آپ جو شعاراور نعرے لگاتے ہيں ان ميں ان چيزوں کے نہ لے کر آئيں (جو مغربي ثقافت کا حصہ ہيں)اور مغربي ثقافت کي طرف جھکاو کو حقوق نسواں کيلئے اپنے مقابلے کا ہدف قرارنہ ديں ۔اس ليے کہ اولاً مغربي ثقافت ايک ناکام ثقافت ہے اور لوگ بھي يہ باتيں سننے کيلئے تيار نہيں ہيں اور بہت سے افراد ان باتوں کو قبول بھي نہيں کرتے ہيں ۔ معاشرے ميں بہت سے صاحب نظر اور ديگر افراد ہيں کہ جو ممکن ہے کہ ان باتوں کو قبول نہ کرتے ہوں تو يہ افراد مقابل ميں آکھڑے ہوں گے کيونکہ يہ لوگ بھي حقوق نسواں کا دفاع کرنے کے خواہش مند ہيں ۔

ثانياً بجائے اس کے کہ سب ہاتھوں ميں ہاتھ ديں اورماضي ميں ضائع شدہ ايک حق کے اثبات کيلئے جدوجہدکريں، آپس ميں مقابلہ آرائي شروع کرديں گے! يوں يہ غلط سلسلہ چل نکلے گا اور يہ اونٹ کسي کروٹ نہيں بيٹھے گا۔ ثالثاً اس طرزعمل کو اپنانے ميں مصلحت نہيں ہے اور نہ ہي خداوند عالم اس سے راضي ہے ۔ انسان کو ايسا کام انجام دينا چاہے کہ اُس کا خدا اُس سے راضي ہو ۔

رضائے الٰہي کيلئے کام کيجئے

حقوق نسواں کے اس دفاع، اس حکومت اور اس فعاليت سے ہمارا ہدف رضائے الٰہي کا حصول ہے ۔ اگر ہمارا خدا ہم سے راضي نہ ہو توہميں اُن تمام چيزوں اوردنياوي طور پر اپنے کامياب ترين نتائج ميں سے کوئي ايک بھي نہيں چاہيے! انسان صرف اپنے خدا کو راضي وخوشنود کرے ۔ ہم يہاں صرف چار دن کي زندگي بسر کررہے ہيں اور صرف کچھ دنوں کيلئے ہمارے بدن اور سانس کے درميان رشتہ قائم ہے ،اس کے بعد ہم ايسي جگہ پہنچيں گے کہ جہاں ازاول تاآخر صرف اور صرف رضائے الٰہي ہي انسان کے کام آتي ہے ۔ لہٰذا انسان کو اپنے رب کي خوشنودي کے حصول کيلئے اقدام کرنا چاہيے ۔

آپ اسے اپنا ہدف ومقصد بنائيے، اپنے کاموں اورجدوجہد ميں قصد قربت کيجئے اورخدا کيلئے کام کيجئے تو خدا بھي آپ کي مدد کرے گا۔

بيماري کي تشخيص کيلئے حقيقت کو مدنظر رکھنا ضروري ہے!

مجھے ايک خط ملا جو خاص طور پر ميرے نام تھا۔ميں نے اُسے ملک کي خواتين کي ايک فعال اوراچھي انجمن کو بھيجا تاکہ وہ اس خط ميں موجود مسائل کے بارے ميں تحقيق کريں ۔ وہ خط بہت طولاني مگر شيريں اور خوبصورت تھا ليکن ميري نگاہوں ميں اس خط ميں موجود معلومات صحيح نہيں تھيں ۔ اس ميں بہت زيادہ شکوہ و شکايات کي گئي تھيں اور جو کچھ ہمارے معاشرے ميں نہيں ہے، اُسے خواتين سے نسبت ديا گيا تھا۔ صرف اس خيال سے کہ يہ سب باتيں اسلام سے مربوط ہيں ليکن درحقيقت ايسا نہيں تھا ميري نظر ميں بيماري کي تشخيص کيلئے انسان کو حقيقت بين ہونا چاہيے ۔

اسلامي احکامات کي حکمت

توجہ فرمائيے کہ اسلام نے مرد و عورت کے درميان حجاب کو قرار ديا ہے اور اس حقيقت کا انکار نہيں کيا جاسکتا ہے کہ يہ حجاب بھي کسي مصلحت وحکمت کے مطابق ہے کہ حجاب کي صحيح ترين شکل يہي ہے ۔ يہ جو کہتے ہيں کہ جب مرد وعورت تنہا ايک کمرے ميں ہوں کہ جہاں دروازہ بند ہو اور پردہ پڑا ہو تو وہاں ان دونوں کا ايک ساتھ موجود ہونا حرام ہے ۔ اس حکم کے پيچھے ايک حکيمانہ اور عميق نظر ہے اور وہ صحيح بھي ہے ۔ معاشرے کے افراد، مرد يا عورت ہونے کي بنا پر جب اپنے باطن کي طرف رجوع کريں گے تو اس بات کي تصديق کريں گے کہ يہ حکم صحيح ہے، کوئي اس کا انکار نہيں کرسکتا کہ يہ کہے کہ يہ حکم غلط ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 next