اسلامى تمدن ميں علوم كى پيش رفت



عالم اسلام ميں ابويوسف يعقوب بن اسحاق كندى (260 ، 185 ق ) سب سے پہلے فلسفى مسلمان شمار ہوتے ہيں وہ پہلے فرد تھے كہ جنہوں نے سائنس و فلسفہ ميں مطالعہ او رتحقيق شروع كى ، اسى ليے انہيں ''فيلسوف العرب'' كا نام ديا گيا ، دوسرى اور تيسرى صدى ہجرى ميں كوفہ علوم عقلى كى تعليم و تحقيق كا مركز تھا كندى نے ايسى فضا ميں علم فلسفہ پڑھا، يونانى اور سريانى زبان سيكھى اور بہت سى اہم كتابوں كا عربى ميں ترجمہ كيا _ كندى كى كتابيں كہ جنكى تعداد 270 تك شمار كى گئي ہے سات اقسام ميں تقسيم ہوتى ہيں جن ميں سے فلسفہ ، منطق ، رياضى ، فلكيات ، موسيقى ، نجوم اور ہندسہ ہيں كندى پہلا شخص تھا كہ جن نے دين اور فلسفہ ميں مصالحت پيدا كى اور فارابى ، ابوعلى سينا اور ابن رشد كيلئے راستہ ہموار كيا انہوں نے ايك طرف سے اپنے پہلے نظريہ كے مطابق منطقيوں كى روش كو طے كيا اور دين كو فلسفہ كى حد تك تنزل ديا اور دوسرے نظريہ ميں دين كو ايك الہى علم جانتے ہوئے فلسفہ كى حد سے بڑھا ديا گويا كہ يہ علم پيغمبرانہ طاقت سے ہى پہچانا جا سكتا تھا،اسطرح دين كى فلسفى تفسير كرتے ہوئے دين كى فلسفہ سے صلح كروائي(1)

عالم اسلام ميں قرون اولى كے دوسرے عظيم فلسفى محمد بن ذكريا رازى ہيں كہ ابن نديم كى تاليف كے مطابق وہ فلسفہ اور سائنس كو اچھى طرح جانتے تھے انكى تاليفات 47 تك شمار كى گئي ہيں كہ آج كم از كم انكے چھ فلسفى مقالے باقى رہ گئے ہيں جناب رازى اگرچہ فلسفہ ميں مرتب نظام نہيں ركھتے تھے ليكن اپنے دور كى صورت حال كو ديكھتے ہوئے عالم بشريت كى نظرياتى تاريخ ميں ايك مضبوط ترين اسلامى دانشور اور مفكر جانے گئے، وہ عقل كى اصالت كے قائل تھے ، او ر عقلى قوت پر بے پناہ اعتماد ركھتے تھے اور اللہ تعالى كى طرف حركت ميں ايمان ركھتے تھے ، ليكن اصالت عقل كا شدت سے پرچار كرنے ، نظر و قياس كے پيروكاروں اور تجميع دين و فلسفہ كے معتقدين پر شديد حملے كرنے كے سبب ،بعض ايرانى فلسفى اصول اور اارسطو سے پہلے والے فلاسفہ

---------------------------

1) ذبيح اللہ صفا، تاريخ علوم عقلى در تمدن اسلامى تا اواسط سدہ پنجم ج 1 ، ص 5،162_

بالخصوص ذيمقراطيس كے نظريات پر توجہ كرنے كے باعث اور بعض خاص عقايد كى بناء پر علماء اسلام كا ايك بہت بڑا گروہ انكا شديد مخالف ہوا بعض نے انہيں صرف ايك طبى شخص جانا اور انہيں فلسفى ابحاث ميں داخل ہونے كا حق نہ ديا بہت سے اسلامى محققين اور دانشوروں نے انہيں ملحد ، نادان ، غافل اور جاہل جيسے خطاب ديے اور بہت سے ديگر اسلامى مفكرين مثلا ابونصر فارابى ، ابن حزم اندلسى ، ابن رضوان ، ناصر خسرو اور فخرالدين رازى نے انكى كتابوں پر تنقيد لكھي(1)

رازى كے بعد افلاطون اور ارسطو كے فلسفہ كى تائيد اور ان دونوںكى آراء كو آپس ميں قريب لانے ، جديد افلاطونى حضرات كى پيروى كرنے اور حكمت كے قواعد كو اسلام ميں مطابقت دينے ميں عظيم مقام ركھنے والے جناب ابونصر فارابى ہيں كہ جنہيں ''معلم ثانى '' كا لقب صحيح طور پر ملا(2)

فارابى كا فلسفہ پچھلى تحقيقات سے مختلف تھا اس ليے كہ انہوں نے گذشتہ فلاسفہ كى آراء كے مطالعہ كرتے ہوئے انہيں انكے اس خاص كلچر پرمبنى ماحول ( جسميں وہ زندگى گزار رہے تھے ) كے تناظر ميں ديكھا ہے ،انكا يہ ايمان تھا كہ فلسفہ بنيادى طور پر ايك مفہوم واحد ہے كہ جسكا مقصد حقيقت كى جستجو ہے اسى ليے انكى نظر ميں فلسفى حقيقت اور دينى حقيقت آپس ميں ہماہنگى اور مطابقت ركھتى ہيں لہذا ان دونوں كى تركيب سے ايك نئے فلسفہ كو وجود ميں لايا جائے_

اس دور كے ديگرعظيم فلسفى جناب ابن مسكويہ ہيں كہ حداقل ان سے اس موضوع ميں چودہ رسالے باقى رہ گئے ہيں ، ابن مسكويہ نے اپنے ايك اہم ترين رسالہ بنام '' الفوز الاصغر'' ميں انسان كى خلقت كے حوالے سے اپنا ايك جديد نظريہ پيش كيا اس نظريہ ميں انہوں نے يہ ثابت كرنے كى كوشش كى كہ يہ خلقت عدم سے حقيقت ميں آئي ہے اور صورتيں بتدريج تبديل ہوجاتى ہيں ليكن مادہ اصلى شكل ميں باقى رہتا ہے پہلى صورت

-----------------------------

1) محمد بن زكريا رازى ، سيرت فلسفى ترجمہ عباس اقبال_



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 next