حقيقت شيعه



حضرت عائشہ سے روايت ہے کہ ذي الحجہ کي چوتھي يا پانچويں تاريخ تھي رسول خدا اس حال ميں تشريف لائے کہ چہرے پہ غصہ کے آثار تھے ميں نے عرض کي يا رسول اللہ! کس نے آپ کو غضبناک کيا خدا اس کو جہنم رسيد کرے۔

آپ نے فرمايا: کيا تم کو نہيں معلوم کہ ميں نے لوگوں کو ايک بات کا حکم ديا اور وہ لوگ اس ميں شک ميں مبتلا ہيں، اگر ميں کسي بات کا حکم ديتا ہوں تو اس کو واپس نہيں ليتا، ميں نے اپنے ساتھ قرباني پيش کرنے کا ارادہ ہي نہيں کيا کہ مجھ کو بھي ديگر حجاج کي مانند قرباني خريد کر ان کي طرح احرام سے خارج ہونا پڑے۔

حضرت عائشہ ہي سے دوسري روايت ہے کہ رسول خدا نے کسي حکم ميں اختيار ديا تھا ليکن اصحاب نے اس حکم سے پہلو تہي اختيار کي جب اس کي اطلاع آپ کو ہوئي تو آپ نے حمد خدا کے بعد فرمايا: اس قوم کو کيا ہوگيا ہے ميں ايک حکم بيان کرتا ہوں اور يہ اس سے کنارہ کشي اختيار کرتے ہيں۔

واللہ ميں ان سے بہتر اللہ کے سلسلہ ميں علم رکھتا ہوں اور ان سے کہيں زيادہ خوف الٰہي کا حامل ہوں۔[13]

گويا اس وقت کي امت اس بات سے بالکل بے خبر تھي کہ نبي تقويٰ و خوف الٰہي کا مظہر ہے آخر ان کو کيا ہوگيا تھا کہ وہ نبوت کے بارے ميں طرح طرح کي بدگمانياں کر رہے تھے اور يہاں تک سوچ بيٹھے تھے کہ رسول کا عمل حکم خدا کے خلاف بھي ہوسکتا ہے، يہاں تک کہ آپ سے کنارہ کش اور آپ کو ننگ و عار کا سبب گرداننے لگے تھے۔

بعض تو کھلم کھلا رسول کے اوامر و نواہي کي مخالفت کرنے لگے تھے، چاہے چھوٹي بات ہو يا بڑا مسئلہ، وہ تو يہ گمان کرنے لگے تھے کہ ان کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ ہر چيز ميں عمل دخل اور فتوي صادر فرمائيں، جو قول رسول کے منافي ہو۔

جابر بن عبد اللہ انصاري سے روايت ہے کہ رسول نے اس بات سے منع کيا تھا کہ عورتوں سے مقاربت نہ کريں اس کے باوجود ہم نے مجامعت کي۔

 Ø­Ú©Ù… Ú©Û’ دو ر Ø®

بعض اصحاب کي جراٴت اس حد تک بڑھ گئي تھي کہ احکامات و تعليمات نبي کا علي الاعلان انکار کرنے لگے اور وہ لوگ وحي الٰہي اور حکم نبي، جو کہ عبادات سے مخصوص تھيں ان کے مقابل خود کو قانع تصور کرنے لگے تھے بلکہ اجتماعي، موروثي امور اور بعض عادات و رسومات يہاں تک کہ نبي کے بعد سياسي مسائل اور حکومت کي تشکيل ميں وہ اپنا حق سمجھتے تھے کہ ان امور ميں مداخلت کريں اور جس چيز ميں بھلائي سمجھيں اس ميں نص نبوي کے خلاف عمل کريں۔[14]

اوراس بات کا بين ثبوت اسامہ بن زيد کي سرداري کا مسئلہ ہے پيغمبر نے اسامہ بن زيد کو لشکر کي سرداري اور اپنے دست مبارک سے علم عطا کيا تھا رسول کے اس عمل پر يہ خصوصي اہتمام بھي بعض

اصحاب کو اعتراض سے باز نہ رکھ سکا اور اسامہ پر يہ طعن و تشنيع کرنے لگے کہ يہ تو ناتجربہ کار نوجوان ہيں، اور مہاجرين و انصار ميں سے سن رسيدہ اصحاب کي سرداري کي اہليت نہيں رکھتے، جن ميں ابوبکر، عمر، ابي عبيدہ جيسے افراد شامل تھے۔<[15]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 next