حقيقت شيعه



اس وقت رسول اپنے اقرباء اور قبيلہ ميں سے نو افراد کے ہمراہ ميدان ميں ڈٹے رہے بقيہ سارے مسلمانوں نے بھاگنے کو ترجيح دي۔

يہ نو افراد رسول Ú©Û’ گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے، عباس، رسول Ú©Û’ خچر Ú©Ùˆ سنبھالے ہوئے تھے اور علي  تلوار سونتے ہوئے Ú©Ú¾Ú‘Û’ تھے، بقيہ افراد خچر Ú©Û’ آس پاس جمع تھے اور مہاجرين Ùˆ انصارکا کہيں اتہ پتہ تک نہيں تھا۔[58]

انس راوي ہيں کہ روز حنين عباس بن عبد المطلب، ابوسفيان بن حارث يعني رسول کے چچازاد بھائي کے سوا سارے لوگ رسول کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، رسول نے حکم ديا کہ منادي ندا دے کہ اے اصحاب سورہٴ بقرہ! اے گروہ انصار! يہ آواز بني حرث بن خزرج ميں گونج رہي تھي جب انھوں نے سني تو پلٹ آئے خدا کي قسم ان کي آوازيں ايسي تھيں، جيسے اونٹني اپنے بچے کو تلاش کرتي ہے،جب وہ لوگ اکٹھے ہوئے تو آتش جنگ بھڑک اٹھي اور رسول نے فرمايا: اب تنور (جنگ) گرم ہوگيا ہے۔

آپ نے سفيد کنکرياں اٹھائيں اور ان کو پھينک ديا اور کہا: رب کعبہ کي قسم دشمن شکست کھاگئے۔

اس دن علي ابن ابي طالب  سب سے زيادہ دليرانہ حملہ کر رہے تھے۔[59]

يہ سارے واقعات اس بات Ú©Û’ غماز ہيں کہ علي  Ú©ÙŠ ہي وہ ذات ہے جو ميدان جنگ ميں سب سے Ø¢Ú¯Û’ Ø¢Ú¯Û’ رہتي تھي اور انہي Ú©ÙŠ ذات اس بات Ú©ÙŠ لياقت رکھتي ہے جو سخت Ùˆ مشکل لمحات ميں امت Ú©ÙŠ رہبري کرسکے، جس طرح طالوت Ù†Û’ اپني امت Ú©ÙŠ قيادت بہترين نصرت Ú©Û’ ساتھ Ú©ÙŠ تھي، اور جالوت اوراس Ú©Û’ ہوا خواہوں Ú©Ùˆ سرزمين فلسطين سے کھديڑ ديا تھا، اور صحرا ميں بني اسرائيل Ú©ÙŠ حيراني Ùˆ سرگرداني کا خاتمہ کر ديا تھا۔

اختلاف کے اسباب

ہمارا مقصد اس وقت حضرت علي Ú©Û’ فضائل بيان کرنا نہيں ہے بلکہ يہ تو اتنے ہيں جن Ú©Ùˆ شمار ہي نہيں کيا جاسکتا اوراس موضوع پر تو متعدد کتابيں Ù„Ú©Ú¾ÙŠ جاچکي ہيں ہمارا اصل مقصد ان حقيقي دعووں Ú©ÙŠ وضاحت ہے جس ميں رسول Ù†Û’ علي  Ú©ÙŠ لياقت Ùˆ صلاحيت کا اعلان کيا ہے اور امت مسلمہ Ú©ÙŠ حيات ميں رونما ہونے والے جنگي اور صلحي اہم موارد کا اظہار ہے اور يہ ساري باتيں چچازاد بھائي اوراہلبيت ہونے Ú©ÙŠ وجہ سے نہيں تھيں جيسا کہ اس Ú©Û’ بارے ميں ہم پہلے ہي تفصيل سے ذکر کرچکے ہيں۔

رسول کا اصلي مقصد فرزندان توحيد Ú©ÙŠ توجہات اس جانب مبذول کرانا تھي کہ علي اور اہلبيت رسول ان Ú©Û’ بعد مرجعيت اسلامي Ú©ÙŠ اہلبيت Ùˆ لياقت رکھتے ہيں، پيغمبر  Ú©Û’ کلام کا لب لباب يہ تھا کہ امت مسلمہ اس بات Ú©Ùˆ تسليم کرے جو اس بات کا سبب بني کہ نظرياتي اختلاف ہو۔

ان ميں سے کچھ ايسے لوگ تھے جو ارادہ نبوت کے سامنے سر تسليم خم کرديئے تھے کيوں کہ شريعت محمدي، وحيٴ سماوي کا پرتو علي تھي، کچھ وہ لوگ تھے جو يہ سونچ رہے تھے کہ رسول اپنے چچازاد بھائي اور اہلبيت کے ساتھ مشفقانہ اور محبتانہ برتاؤ کر رہے تھے اسي کے سبب انھوں نے يہ خيال کرليا کہ حق مشورت رکھتے ہيں بلکہ اعتراض کا بھي حق رکھتے ہيں، اس کا ثبوت بھي موجود ہے جو حسد کے سبب بعض لوگوں کي جانب سے معرض وجود ميں آيا۔

ہماري يہ بات صرف ادعا کي حد تک اور بے بنياد نہيں ہے، بلکہ متواتر روايات اس حقيقت پر گواہ ہيں بريدہ کي گذشتہ روايت آپ نے ملاحظہ فرمائي کہ خاليد بن وليد نے بريدہ کو رسول کے پاس اس لئے بھيجا تھا کہ علي کي شکايت کريں وہ اس موقع کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتا تھا، اسي لئے تو خالد نے بريدہ سے کہا تھاکہ وہ کنيز مال غنيمت کي تھي جو تصرف ميں لائي گئي ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 next