حقيقت شيعه



سيوطي نے اپني تفسير در منثور ميں اس آيت <وَ رَدَّ اللّٰہُ الَّذِينَ کَفَرُوا بِغَيظِہِم لَم يَنَالُوا خَيراً وَ کَفٰي اللّٰہُ المُوٴمِنِينَ القِتَالَ><[54]کے ضمن ميں نقل کيا ہے اور ابن ابي حاتم نے ابن مُردويہ نيز ابن عساکر نے ابن مسعود سے نقل کيا ہے کہ وہ اس حرف کو ايسے پڑھتے تھے <وَ کَفيٰ اللّٰہُ المُوٴمِنِينَ القِتَالَ> بعليّ بن ابي طالب۔

ذہبي نے بھي نقل کيا ہے کہ ابن مسعود يوں پڑھا کرتے تھے <وَ کَفيٰ اللّٰہُ المُوٴمِنِينَ القِتَالَ> بعليّ۔[55]

عمروبن عبدود Ú©ÙŠ شہامت Ú©Û’ باعث مسلمان اس Ú©Û’ مقابل جانے سے کترا رہے تھے، خود رسول اکرم بھي حضرت علي  کا اس Ú©Û’ مقابل جانا پسند نہيں کر رہے تھے۔

ابوجعفر اسکافي Ù†Û’ اس واقعہ اور رسول Ú©ÙŠ کيفيت Ú©ÙŠ تفصيل ابن ابي الحديد معتزلي سے Ú©Ú†Ú¾ يوں نقل Ú©ÙŠ ہے جو اس Ù†Û’ تاريخ سے ليا ہے، ”رسول عمرو Ú©Û’ مقابل علي  Ú©Û’ جانے سے احتراز کر رہے تھے آپ Ù†Û’ (حضرت علي ) Ú©ÙŠ حفظ Ùˆ سلامتي Ú©ÙŠ دعا Ú©ÙŠ ہے، جب حضرت علي  روز خندق عمرو بن عبدود Ú©Û’ مقابل Ù†Ú©Ù„Û’ تو رسول Ù†Û’ اصحاب Ú©Û’ جھرمٹ ميں اپنے دست مبارک Ú©Ùˆ اٹھا کر يہ دعا فرمائي: ”اللّٰہم انک اٴخذت مني حمزة يوم احد Ùˆ عبيدہ يوم بدر فاحفظ اليوم علياً“ خدا يا! تو Ù†Û’ احد ميں حمزہ Ú©Ùˆ اور بدر ميں عبيدہ Ú©Ùˆ مجھ سے Ù„Û’ ليا لہٰذا آج Ú©Û’ دن علي Ú©ÙŠ حفاظت فرما، اور يہ کيفيت اس وقت طاري ہوئي جب عمرو بن عبدود Ù†Û’ مبارز طلب کيا تو سارے مسلمان خاموش تماشائي بنے تھے اور علي  ہي Ø¢Ú¯Û’ بڑھے تھے اور اذن جہاد طلب کيا تھا، خود رسول Ù†Û’ اس وقت فرمايا تھا: ”علي يہ عمرو ہے“ حضرت علي  Ù†Û’ جواب ديا تھا: ”ميں علي ہوں“

آپ نے علي کو قريب کيا اور آپ کے بوسے لئے اپنا عمامہ ان کے سر پر رکھا اور چند قدم آپ کے ساتھ وداع کرنے کے ارادے سے آئے، آپ پرشاق ہو رہا تھا اور آنے والے لمحات کا انتظار کر رہے تھے، آسمان کي جانب اپنے ہاتھ اور چہرے کو بلند کيئے (دعا کر رہے تھے) اور مسلمانوں ميں سنّاٹا چھايا ہوا تھا گويا ان کے سروں پر پرندے بيٹھے ہيں۔

جب غبار جنگ چھٹااور اس ميں سے تکبير Ú©ÙŠ آواز سنائي دي تو لوگوں Ù†Û’ جانا کہ علي  Ú©Û’ ہاتھوں عمرو قتل ہوچکا ہے ،رسول Ù†Û’ صدائے تکبير بلند Ú©ÙŠ اور مسلمانوں Ù†Û’ ايک آواز ہوکر رسول کا ساتھ ديا جس Ú©ÙŠ گونج خندق Ú©Û’ اس پار افواج مشرکين Ú©Û’ کانوں سے ٹکرائي۔

اسي وجہ سے حذيفہ يماني نے کہا ہے کہ اگر روز خندق علي کي فضيلت کو تمام مسلمانوں پر تقسيم کرديا جائے تو سب کو اپنے احاطہ ميں لے ليگي۔

ابن عباس اس قول خدا کے بارے ميں کہتے ہيں: <وَ کَفيٰ اللّٰہُ المُوٴمِنِينَ القِتَالَ>، بعليّ ابن ابي طالب!!

حضرت علي خيبر ميں

ساتويں ہجري ميں خود رسول اکرم شريک لشکر تھے اور خيبر کے قلعوں کي فتح چاہتے تھے جہاں وہ لوگ پناہ لئے ہوئے تھے آپ نے بعض اصحاب کو اس مہم کو سر کرنے کے لئے بھيجا مگر ان سے کچھ نہ بن پڑا۔

بريدہ سے روايت ہے کہ جب کبھي آپ طاقت فرسا سفر کرتے تھے تو ايک يا دو دن باہر نہيں آتے تھے اور جب رسول نے يہ دشوار سفر طے کيا تو آپ باہر نہيں آئے ابوبکر نے علم رسول اٹھايا اور جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اپنے تئيں حملات کيئے اور واپس آگئے، پھر عمر نے علم رسول کو سنبھالا اورابوبکر سے زيادہ جنگ ميں شدت پيدا کرنے کي کوشش کي سر انجام فتح کے بغير واپس آگئے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 next