حقيقت شيعه



اے رسول، آج کے دن ہم نے آپ کے دين کو مکمل کرديا اور آپ پر نعمتيں تمام کرديں اور آپ کے دين اسلام سے راضي ہوگيا۔

مذکورہ آيت Ú©Ùˆ حديث رسول Ú©Û’ اس فقرہ ”لاتضلون بعدہ“ سے جو حديث ثقلين سے مربوط ہے کہ ”ما ان تمسکتم بہما لن تضلوا“ جب تک قرآن Ùˆ اہل بيت سے متمسک رہو Ú¯Û’ گمراہ نہيں ہوگے، تقابل کرنے سے يہ بالکل عياں ہوگيا کہ رسول  اس وصيت ميں اپنے بعد اہلبيت Ú©Û’ سلسلہ ميں وصيت کرنا چاہتے تھے اور ان Ú©Û’ سربراہ Ùˆ سردار حضرت علي  Ú©Û’ سلسلہ ميں وضاحت کرنا چاہتے تھے، اسي سبب شاہراہ اجتہاد Ú©Û’ سالکين اپني تمام تر قوتوں سميت مقصد رسالت Ú©Ùˆ مکمل ہونے سے مانع ہوئے اور اس بات تک کا خيال کر بيٹھے کہ رسول مرض Ú©Û’ سبب معاذ اللہ ہذيان بکنے Ù„Ú¯Û’ ہيں۔<[72]

رسول کے پاس اس نافرماني کا کوئي بدل نہيں تھا جو انھوں نے ناراضگي کا اظہار کيا تھا وہ بھي اس طرح کي مخالفت کي صورت ميں جو انھوں نے انجام ديا تھا سوائے اس کے کہ اس بھرے مجمع ميں يہ کہديں کہ ”قوموا عني“ يہاں سے چلے جاؤ!يہ نتيجہ صرف ہمارے ہي نزديک نہيں ہے بلکہ خود عمر نے اس کي وضاحت کي ہے۔

روايات سے يہ بات بالکل واضح ہے کہ عمر بن الخطاب نے يہ جملہ کہا تھا کہ (نبي ہذيان بک رہے ہيں اور جب بعد کے محدثين نے اس جملہ کي کڑواہٹ کو محسوس کيا تو جملہ کو بدل ديا جس سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ عمر نے کہا کہ آپ پر بخار کا غلبہ ہوگيا تھا

ابن عباس نے عمر سے روايت کي ہے: عمر کے ابتدائے خلافت ميں ان کے پاس گيا تو ان کے سامنے کھجور کے پتوں کي بني ٹوکري ميں کھجور رکھ دي گئي انھوں نے مجھے بھي دعوت دي، ميں نے ايک کھجور اٹھالي، انھوں نے بقيہ ختم کردي اورايک مٹکا جو ان کا مخصوص تھا اس کو ختم کيا اور ہاتھوں کا تکيہ بنا کے ليٹ گئے اور حمد الٰہي کي تکرار کرنے لگے،يکايک مجھ سے مخاطب ہوکر کہا: اے عبداللہ! کہاں سے آرہے ہو؟

ميں نے کہا: مسجد سے۔

پھر پوچھا کہ اپنے چچازاد بھائي کو کس حال ميں چھوڑ کر آئے ہو؟

ميں سمجھا کہ عبد اللہ بن جعفر کے بارے ميں سوال کيا ہے ميں نے کہا: وہ اپنے ہمسن بچوں کے ساتھ کھيلنے ميں مشغول ہے۔

انھوں نے کہا: ميري مراد وہ نہيں ہے بلکہ تم اہل بيت کے سيد و سردار۔

ميں نے کہا: وہ فلاں شخص کے باغ ميں آبياري کر رہے ہيں اور تلاوت قرآن فرماتے جارہے ہيں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 next