حقيقت شيعه



ابن عباس Ù†Û’ جيسا کہ روايت Ú©ÙŠ ہے کہ حضرت علي  اور عثمان Ú©Û’ درميان Ú©Ú†Ú¾ کلامي ردوبدل ہوئي تو عثمان Ù†Û’ کہا کہ ØŒ قريش تم سے محبت نہيں کرتے تو يہ بات تعجب خيز نہيں ہے کيونکہ آپ Ù†Û’

     جنگ بدر ميں ان Ú©Û’ ستر آدميوں Ú©Ùˆ قتل کيا ہے ان Ú©Û’ چہرے سونے Ú©ÙŠ بالياں تھيں ان Ú©Ùˆ عزت ملنے سے پہلے ہي ان Ú©ÙŠ ناک رگڑ دي گئي۔[70]

شاہراہ اجتہاد کا استعمال

(نص Ú©Û’ مقابل راہ اجتہاد) Ú©ÙŠ تدبيريں قوي اور بيخ Ú©Ù† تھي جنھوں Ù†Û’ خلافت Ú©Ùˆ اہل بيت سے جدا کر ديا اوراس طرح Ú©Û’ مواقع وفات رسول سے قبل اور غدير Ú©Û’ بعد رونما ہونے Ù„Ú¯Û’ تھے، يہ بات بالکل روز روشن Ú©ÙŠ طرح واضح تھي کہ رسول حضرت علي  Ú©Ùˆ اپنے بعد اسلام کا مطلق مرجع Ùˆ مرکز گردانتے تھے تاکہ اسلامي شہروں Ú©ÙŠ سياسي، عسکري، اقتصادي، ديني، اور  ہر طرح Ú©ÙŠ ديکھ بھال ميں رسول اکرم Ú©Û’ مکمل جانشين ثابت ہوسکيں۔

جب رسول Ù†Û’ لشکر اسامہ Ú©Û’ ساتھ جنگ ميں شرکت Ú©Û’ مسئلہ ميں بعض لوگوں Ú©ÙŠ نافرماني اور روگرداني ديکھي تواس بات کا ارادہ کيا چونکہ نبي مرض الموت ميں مبتلا ہيں اور آفتاب رسالت بس غروب ہونے والا ہے اور آپ کا وجود نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گا لہٰذا کوئي شخص ان کا جانشين معين ہوجائے اور پہلے نظريہ Ú©Û’ حامل اصحاب ميں موجودہ صورت حال سے کھلبلي Ù…Ú†ÙŠ ہوئي تھي، اور رسول  جوارِ رب ميں جانے Ú©Û’ لئے اپنے آپ Ú©Ùˆ تيار کر رہے تھے اور وہ مدينہ منورہ Ú©Ùˆ ايک دور افتادہ زمين Ú©Û’ لئے ميدان جنگ بنانا چاہتے تھے اور اس Ú©Û’ جنگي نتيجہ سے بالکل بے خبر تھے، اور حضرت علي  اور ان Ú©Û’ ہم فکر افراد اس حملہ Ú©Û’ حق ميں نہيں تھے تو ظاہر سي بات ہے کہ ايسے وقت ميں رسول Ú©ÙŠ ذاتي تدبير کيا تھي؟۔

 Ø§ÙˆØ± يہ صرف اس لئے تھا کہ يہ مسئلہ مرکز سے دور ہو جائے اور فضا سازگار ہو جائے تاکہ علي Ú©ÙŠ ولايت کا استحکام آسان ہو جائے اور جب فوج اپني مہم Ú©Ùˆ سرکر Ú©Û’ واپس آئے Ú¯ÙŠ تو اس وقت مسئلہ خلافت بنحو احسن انجام پذير ہوچکا ہوگا۔

علي  Ú©ÙŠ بيعت ہوچکي ہوگي اور امور اپني جگہ مستقر ہوچکے ہوں Ú¯Û’ اس وقت کسي قسم کا اختلاف نہيں رہ جائے گا اطاعت Ú©Û’ سوا کوئي چارہ نہيں رہے گا اور سب اس جھنڈے تلے جمع ہو جائيں Ú¯Û’ جہاں لوگ پہلے سے جمع ہيں۔

حزب مخالف (اپوزيشن پارٹي) Ú©Û’ لوگ اس حقيقت Ú©Ùˆ تاڑ گئے تھے لہٰذا انھوں Ù†Û’ جيش اسامہ Ú©ÙŠ پيش قدمي ميں ٹال مٹول کر رہے تھے، ہرچند کہ رسول  اسامہ Ú©Û’ لشکر Ú©Ùˆ جلد از جلد روانہ ہونے پر مصر تھے اور بار بار تکرار فرماتے تھے کہ ”انفذ Ùˆ ابعث اسامہ“ جيش اسامہ Ú©Ùˆ جلد روانہ کرو، يہ جملہ خود رسول Ú©ÙŠ بے کيفي کا غماز ہے کيونکہ آپ Ú©ÙŠ عجلت Ú©Û’ باوجود ان Ú©Û’ تعميل Ø­Ú©Ù… ميں سستي برتي جارہي تھي جبکہ آپ چاہتے تھے کہ مرکز خرافات دور ہوجائے اور يہاں سے چہ ميگوئياں ختم ہو جائيں۔

اس Ú©Û’ بعد رسول Ù†Û’ دوسرا موقف اختيار کيا اور فيصلہ Ú©Ùˆ قطعي اور حتمي Ø´Ú©Ù„ دينے Ú©Û’ لئے اور اپنے بعد علي  Ú©Ùˆ اپنا وزير مقرر کرنے Ú©Û’ لئے ايک تحريري ثبوت مہيا کرنا چاہا جس سے انحراف کا امکان نہيں تھا، لہٰذا اصحاب سے اس بات Ú©ÙŠ خواہش Ú©ÙŠ کہ قلم Ùˆ دوات مہيا کرديں تاکہ ان Ú©Û’ لئے نوشتہ Ù„Ú©Ú¾ ديں اور وہ لوگ گمراہي سے بچ جائيں جيسا کہ اس Ú©ÙŠ خبر گذشتہ بحثوں ميں گذر Ú†Ú©ÙŠ ہے۔

اجتہادي نقطہٴ نظر سے اس بات کا انکشاف مشکل نہيں تھا کہ اس تحرير کے معني و مقصد کو سمجھ ليا جائے، کيونکہ رسول بستر موت پر ہيں اور صورت حال کچھ ناگفتہ بہ ہے لہٰذا اس نوشتہ ميں صرف وصيت ہي ہوگي! جس کا پورا پورا يقين پايا جاتا ہے اوراس تحرير ميں رسول کي وصيت ميراث اور اس کے مثل مسائل سے قطعي مربوط نہ ہوگي، کيونکہ رسول کا قول ”لاتضلون بعدہ“ تاکہ اس تحرير کے بعد گمراہي نہ ہو، رسول کا قول صرف امت اور اسلام کے مستقبل سے متعلق تھا کيونکہ شريعت اب مکمل ہوچکي تھي اور خداوند تعاليٰ نے اس بات کي خبر بھي دے دي تھي،

<ْاٴليَومَ اٴکْمَلتُ لَکُم دِينَکُم وَاٴتمَمتُ عَلَيکُم نِعمَتِي وَ رَضِيتُ لَکُمُ الإسلامَ دِيناً>[71]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 next