حقيقت شيعه



مذکورہ بيان سے يہ بات واضح ہوتي ہے کہ خداوند عالم Ù†Û’ اپنے بندوں سے جس اسلام Ú©Ùˆ چاہا ہے اس سے مراد کيا ہے؟ اور وہ ہے فرامين نبوت Ú©ÙŠ تمام معني ميں اطاعت،  چاہے يہ احکام عام انساني نظريات Ùˆ آراء Ú©Û’ برخلاف ہي کيوں نہ ہوں، يا خود انسان يہ سوچے کہ مصلحت اس Ú©ÙŠ خلاف ورزي ميں ہے۔

لہٰذا خدا نے بتلاديا ہے کہ خدا و رسول کے آگے سر تسليم خم کرنا ان تمام مصلحتي تقاضوں پر مقدم ہے جو انسان کي اپني فکري يا بعض فکري بيمار سياست کي کوششوں کا نتيجہ ہوتا ہے اور يہ کہ اسلام کو خضوع و خشوع کا مرقع ہونا چاہئے اور ارادہٴ نبوي کا مطلق مطيع و فرمانبردار ہونا چاہئے کيونکہ آپ خدا کے رسول ہيں اور آپ کي اطاعت، استمرار اطاعت خداوندي ہے۔!

ليکن دوسري اصطلاح کے مطابق عبادات الٰہيہ ميں اخلاص کا ہونا يعني مسائل شرعيہ ميں اخلاص پيدا کرنا ہے جو کہ اعضاء و جوارح سے متعلق ہيں جيسے نماز، روزہ، حج اور ان جيسے احکامات، اس کے مفہوم کا دائرہ پہلے معني کے بنسبت محدود ہے جو اوامر و نواہي نبوي سے متعلق ہے، اس لئے کہ احکام شرعيہ کي پابندي ميں لوگوں کي اکثريت شامل ہے اور وہ اس کو بجالانے ميں کوشاں ہيں۔

البتہ بسا اوقات کچھ لوگ کسي مشکل کي وجہ سے اس قانون کي تاب نہيں لاپائے يا کبھي کسي حکم کي نافرماني اس وجہ سے کر بيٹھتے ہيں کہ ان کي نظر ميں وہ حکم مصلحت کے برخلاف ہوتا ہے۔

قرآن کريم نے ان دونوں صورتوں کي بڑي حسين تقسيم کي ہے، پہلے کا نام ايمان، اور دوسرے کا نام اسلام رکھا ہے۔

باديہ نشينوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمايا:

<قَالَتِ الاٴعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَم تُوٴمِنُوْا وَ لٰکِنْ قُوْلُوْا اٴَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدخُلِ الإيْمَانُ فِي قُلُوبِکُمْ>[5]

(يہ بدو عرب کہتے ہيں کہ ہم ايمان لے آئے ہيں تو آپ کہہ ديجئے کہ تم ايمان نہيں لائے بلکہ يہ کہو کہ اسلام لائيں ہيں کہ ابھي ايمان تمہارے دلوں ميں داخل نہيں ہوا ہے)

باديہ نشينوں Ù†Û’ احکام شرعيہ Ú©ÙŠ بجا آوري ميں سہل انگاري سے کام ليا تو ان Ú©Ùˆ تنبيہ Ú©ÙŠ کہ تمہاري يہ حرکتيں  ايمان Ú©Û’ (جوکہ اطاعت خدا Ùˆ رسول Ú©Û’ معني ميں ہيں) بالکل منافي ہيں، (قرآن Ù†Û’) ان

  Ú©Û’ موقف کا اظہار بھي کرديا، اور ان ميں سے بعض افراد Ú©Û’ غلط نظريات Ú©Ùˆ طشت از بام کرديا جنھوں Ù†Û’ غزوہٴ تبوک Ú©Û’ مسئلہ ميں Ø­Ú©Ù… رسالت Ú©ÙŠ نافرماني Ú©ÙŠ تھي، خدا Ù†Û’ ان Ú©ÙŠ مذمت Ú©ÙŠ ہے، کيونکہ وہ لوگ يہ سمجھ رہے تھے کہ Ø­Ú©Ù… رسالت Ú©ÙŠ نافرماني ہي ميں بھلائي اور مصلحت ہے وہ يہ گمان کر رہے تھے کہ اس Ø­Ú©Ù… ميں وسعت اور اختيار ہے لہٰذا مخالفت کر بيٹھے۔

قرآن کريم نے ان کي سرزنش کي اور بعض اصحاب کي تنبيہ کي جنھوں نے علم بغاوت بلند کر رکھا تھا، اور قرآن کا لہجہ اس سلسلہ ميں بہت سخت تھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 next