حقيقت شيعه



اجتہاد کے سلسلہ ميں بعض اصحاب کا موقف

 Ø¨Ø¹Ø¯ حيات رسول اس موضوع Ú©ÙŠ زيادہ وضاحت ہوئي کہ تمام Ú©Û’ تمام اصحاب اطاعت نبوي ميں ايک مرتبہ پر فائز نہيں تھے، دو دھڑے ميں تقسيم ہوگئے تھے، بعض اس نظريہ Ú©Û’ قائل تھے کہ رسول Ú©Û’ اوامر Ùˆ نواہي مسلّمات ديني ميں سے ہيں ان Ú©ÙŠ خلافت ورزي کسي صورت ميں صحيح نہيں ہے اور ايسے افراد Ú©ÙŠ تعداد بہت Ú©Ù… تھي اور انھيں Ú©Û’ بيچ وہ افراد بھي تھے جو اس حد تک روشن فکر تھے کہ احکام نبوي ميں کتر بيونت کرتے تھے بلکہ اس بات Ú©Û’ بھي قائل تھے کہ عصري تقاضوں Ú©Û’ تحت اس Ú©ÙŠ مخالفت بھي Ú©ÙŠ جاسکتي ہے، حديہ کہ مصلحت Ú©Û’ پيش نظر بعض سنت نبوي سے بھي لوگوں Ú©Ùˆ دور رکھا جاسکتا ہے، جس Ú©Û’ ثبوت ميں اوارق تاريخ گواہ ہيں۔

رسول اکرم جب اپنے اصحاب کے ہمراہ ابوسفيان کے قافلہ کي تلاش ميں نکلے تو اس وقت ابوسفيان کي قدرت و تدبير بھي اس کو مسلمانوں سے نہيں بچاسکتي تھي او رمشرکين مکہ ان کي پشت پناہي اوران کے اموال کي حفاظت بھي نہيں کرسکتے تھے جب مشرکين مکہ اور مسلمانوں کي مڈبھيڑ ہوئي، تو اس وقت نبي کا ارادہ سب پر واضح اور روشن تھا کہ ”ہم نہيں يا تم نہيں“ اس وقت مشرکين مکہ خاص طور سے ان کا سردار ابوجہل مسلمانوں سے جنگ پر اتاولہ ہورہا تھا اور وہ يہ سوچ رہا تھا کہ يہ سنہري موقع ہے کہ ان (مسلمانوں) کي بيخ کني کرديں گے اور ہميشہ ہميشہ کے لئے نبوت کا چين چھين ليں گے۔

ايسے روح فرسا حالات ميں پيغمبر کا مسلمانوں کے ہمراہ جنگ کئے بغير واپس آجانا جنگ سے فرار ہي شمار کيا جائے گا۔

بسا اوقات تو مشرکين مسلمانوں کے محلہ ميں آپسي جھگڑوں ميں جسارت کي حد تک پہنچ جاتے تھے اور يہ تو بہت بڑا الميہ تھاکہ اصحاب، جنگ ميں مرضيٴ نبوت کے خلاف اقدام کرتے تھے اور ايک کثير تعداد فکري تائيد نہيں کرتي تھي بعض زبان دراز تو يہاں تک کہہ بيٹھے کہ جنگ کي بات کيوں نہيں ختم کرتے تاکہ ہم سکون کي سانس لے سکيں! ہم تو مال و متاع کے لئے نکلے تھے۔

روايت ميں آےا ہے کہ (کسي نے کہا) يارسول اللہ! ”آپ مال و متاع پر نظر رکھئے دشمن کو جانے ديں“ تو آپ کے چہرے کا رنگ متغير ہوگيا۔

ابو ايوب کہتے ہيں: کہ ايسے ہي وقت يہ آيت نازل ہوئي

<کَمَا اٴخرَجَکَ رَبُّکَ مِن بَيتِکِ بِالحَقِّ وَ إنَّ فَرِيقاً مِنَ المُؤمِنِينَ لَکَارِہُونَ>[6]

(جس طرح تمہارے رب نے تمہيں تمہارے گھر سے حق کے ساتھ برآمد کيا اگر چہ مومنين کي ايک جماعت اسے ناپسند کر رہي ہے)

پيغمبر جب جنگ بدر کے لئے روانہ ہوئے تو رمضان کا مہينہ تھا آپ نے اس وقت ايک، يا دو روزہ رکھا تھا اس کے بعد واپس آئے تو آپ کے نقيب نے يہ صدا دي کہ: اے گنہگارو! ميں نے افطار کرليا ہے لہٰذا تم بھي افطار کرلو اس کے قبل ان سے يہ کہا جاچکا تھا کہ افطار کرلو ليکن ان کے کان پہ جوں نہيں رينگي تھي۔[7]

بلکہ بعض افراد کي رائے، جنگ کے سلسلہ ميں ارادہٴ نبوت کے بالکل خلاف تھي جب رسول نے اصحاب سے مشورہ کيا تو عمر بن الخطاب نے کھڑے ہوکر کہا کہ يارسول اللہ خدا کي قسم وہ قريش ہيں اور صاحبان جاہ و حشم، جب سے وہ صاحب عزت ہوئے ہيں آج تک ذليل نہيں ہوئے، جب سے کفر اختيار کيا آج تک ايمان نہيں لائے، خدا کي قسم وہ اپني آبرو کا کبھي بھي سودا نہيں کريں گے وہ آپ سے ضرور بالضرور اور ہميشہ برسرپيکار رہيں گے يہ سننے کے بعد پيغمبر نے عمر کي جانب سے منہ پھير ليا۔[8]

دوسري جانب ہم ديکھتے ہيں کہ وہيں ايسے اصحاب بھي تھے جن کا نظريہ اور ان کي سونچ ان سے بالکل مختلف تھي۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 next