حقيقت شيعه



يہ با ت بالکل مسلم ہے کہ خدا کا انتخاب ممتاز حيثيت رکھتا ہے کيونکہ خدا بہتر جانتا ہے کہ بندوں کي قيادت کي باگ ڈور کس کے سپرد کي جائے۔

لہٰذا اب ان معروضات Ú©Û’ پيش نظر ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ حضرت علي  Ú©ÙŠ ذات والا صفات وہ ہے جواپنے زمانے ميں سب سے زيادہ علم Ùˆ شجاعت Ú©Û’ لحاظ سے قيادت Ú©ÙŠ اہليت Ùˆ صلاحيت رکھتي تھي، اور تاريخي حقائق اس بات پر گواہ ہيں، کيونکہ دراز مدت سے ہي نبي اپنے اقوال Ùˆ افعال Ú©ÙŠ Ø´Ú©Ù„ ميں ان نعمتوں Ú©Û’ حامل تھے۔

علي، اعلم امت

اس ميں کوئي شک نہيں کہ ديني اور دنيوي حکومت دونوں کا مدافع ہونا اس بات کا متقاضي ہے کہ امور دين و شريعت کا مکمل عالم ہو اور سياست و قيادت کي باريکيوں سے بخوبي واقف ہو۔

اوراق تاريخ اس بات پرگواہ ہيں کہ رسول Ú©Û’ بعد امت Ú©Û’ سب سے بڑے عالم، فيصلہ کرنے والے، اور قاضي حضرت علي  ہيں۔

اس بات کي شہادت سب سے پہلے رسول نے دي اس کے بعد اصحاب رسول نے اور واقعات نے بڑھ کر اس حقيقت ميں رنگ بھرديا، محدثين نے ابن عباس اور دوسرے افراد سے روايت نقل کي ہے کہ نبي کريم نے فرمايا: ”انا مدينة العلم و عليٌّ بابہا فمن اراد المدينة فليات بابہا“ ميں شہر علم ہوں علي اس کا دروازہ ، جو شہر ميں آنا چاہے اس کو چاہيئے کہ در سے آئے۔[39]

دوسري جگہ فرمايا:

 â€Ø§Ù†Ø§ دار الحکمة Ùˆ عليٌّ بابہا“[40] ميں دار حکمت ہوں اور علي اس کا دروازہ Û”

بعض احاديث ميں رسول نے امت کي توجہات کو مبذول کرايا ہے حضرت علي کے اس علم کي جانب جو رسول کے بعد مرجعيت عامہ کي اہليت پر دلالت کرتا ہے، رسول نے دونوں کے درميان واضح طور پر ربط کو بيان کيا ہے۔

سلمان کہتے ہيں کہ ميں نے رسول سے عرض کيا يا رسول اللہ! ہر نبي کا ايک وصي رہا ہے اور آپ کا وصي کون ہے؟ آپ نے خاموشي اختيار کرلي، پھر دوبارہ جب ميري ملاقات ہوئي تو فرمايا: ”سلمان“ ميں جلدي سے بڑھ کر آگے گيا اور عرض کي: ”لبيک يارسول اللہ! “

آپ نے فرمايا: جانتے ہو موسيٰ کا وصي کون تھا؟

ميں نے کہا: ہاں، يوشع بن نون۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 next