حقيقت شيعه



تاج پوشي

ديني مرجعيت اور ہر زمانے کي حکومت کے درميان جو ايک گہرا ربط تھا اس کي رسول نے بڑي تاکيد کي تھي اور اس بات کي کوشش کي تھي کہ امت مسلمہ اس کي مکمل حفاظت کرے، اس بات کے پيش نظر رسول نے امت کے سامنے اہلبيت کو پہچنوايا تھا اور يہ وہ افراد تھے جو دو عظيم، بھاري بھرکم چيزوں کي نظارت کي اہليت رکھتے تھے ايک تو شريعت الٰہيہ کي حفاظت دوسرے اس نوجوان دور حکومت کي زمامداري جس کو نبي نے حيات بخشي تھي۔

اسي بنا پر متعدد مقامات اور مناسبتوں پر رسول Ù†Û’ اہلبيت  اور علي Ú©ÙŠ ولايت Ú©Û’ مسئلہ Ú©Ùˆ بيان کيا تھا کيونکہ رسول Ú©Û’ بعد مرکز اہلبيت  حضرت علي  ہي تھے ØŒ  ۱۰ھء ميں نبي Ú©Û’ حجة الوداع Ú©Û’ موقع پر اس مسئلہ Ú©ÙŠ اور وضاحت ہوئي۔

 Ø­Ø¯ÙŠØ« ثقلين Ú©Û’ ضمن ميں ہم Ù†Û’ يہ بات عرض Ú©ÙŠ تھي کہ رسول Ù†Û’ فرمايا: مجھے خدا Ú©ÙŠ جانب طلب کيا گيا ہے اور ميں Ù†Û’ اجابت کرلي ہے اور ميں تم لوگوں Ú©Û’ درميان دو بيش بہا چيزيں Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر جارہا ہوں ايک اللہ Ú©ÙŠ کتاب دوسرے ميري عترت، لطيف Ùˆ باخبر خدا Ù†Û’ ہم Ú©Ùˆ اس بات Ú©ÙŠ خبر دي ہے کہ يہ دونوں ايک دوسرے سے بالکل جدا نہيں ہوں Ú¯Û’ يہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملاقات کريں Ú¯Û’ لہٰذا ديکھو تم لوگ ان دونوں Ú©Û’ سلسلہ ميں ميري خلافت کا کس حد تک خيال رکھتے ہو۔

اس Ú©Û’ بعد فرمايا: خدائے عزوجل ميرا مولا ہے اور ميں ہر مومن کا مولا ہوں اس Ú©Û’ بعد حضرت علي  Ú©Û’ دست مبارک Ú©Ùˆ Ù¾Ú©Ú‘ کر فرمايا: ”جس جس کا ميں مولا ہوں يہ (علي) اس Ú©Û’ مولا ہيں، خدايا! تو اس Ú©Ùˆ دوست رکھ جواس Ú©Ùˆ دوست رکھے، تو اس Ú©Ùˆ دشمن شمار کر جو اس Ú©Ùˆ دشمن سمجھے “[37]

اس Ú©Û’ بعد رسول Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہوئے اور اپنے ”سحّاب“ نامي عمامہ Ú©Û’ ذريعہ حضرت علي  Ú©ÙŠ تاج پوشي Ú©ÙŠ اور ان سے کہا: ”اے علي عمامے عرب Ú©Û’ تاج ہيں“

مرجعيت Ú©Û’ لئے حضرت علي  Ú©Û’ اہليت

رسول کا اپنے بعد پوري ملت مسلمہ کا حضرت علي ابن ابي طالب  Ú©Ùˆ مرجعيت Ú©ÙŠ ذمہ داري سونپنا، نہ ہي بلاسبب تھا اور نہ ابن العم (چچازاد بھائي) ہونے Ú©Û’ ناطے تھا، نہ يہ پہلو دخيل تھا کہ يہ رسول Ú©Û’ داماد ہيں کيونکہ رسول کسي فعل Ú©Ùˆ انجام نہيں ديتے تھے اور نہ ہي کوئي کلام کرتے تھے جب تک وحي پروردگار کا نزول نہ ہوجائے ہر امر ميں Ø­Ú©Ù… خدا Ú©Û’ تابع تھے، امور امت مسلمہ سے زيادہ ان Ú©ÙŠ نظر ميں اقرباء پروري اہميت نہيں رکھتي تھي، جس Ú©ÙŠ پائيداري اوراستحکام Ùˆ استقامت Ú©Û’ لئے ايک طويل عرصہ سے جانفشاني Ú©ÙŠ تھي جو تقريباً چوتھائي صدي پر محيط تھا اس Ú©Û’ لئے انھوں Ù†Û’ بہت سارے معرکہ حل کئے ہيں اور ناگفتہ بہ مشکلات Ú©Ùˆ جھيلا ہے تب جاکر اس حکومت ميں پائيداري آئي ہے جس Ú©Û’ منشورات ميں سے يہ تھا کہ انسانيت دنيا ميں خير Ùˆ صلاح Ú©Û’ مسلک پر گامزن ہوجائے تاکہ آخرت ميں کاميابي سے ہمکنار ہوسکے۔

جب کہ نبي کريم امت مسلمہ کے سلسلہ ميں بہت حساس اور محتاط تھے اور اپني حيات طيبہ ہي ميں اس بات کے لئے کوشاں تھے اور بيحد فکر مند تھے تو کيا صرف يہ سوچ اور فکر ہي کافي ہوگي؟ اوراپنے بعد امت کو يوں ہي کسي دلدل ميں چھوڑ ديں گے اور صراط مستقيم کي رہنمائي نہيں کريں گے جو ان کو راہ ابن جزري نے اسس المطالب کے ص۴۸ پر کہا ہے کہ اس رخ سے حديث ”حسن“ ہے اور کئي ساري وجہوں سے صحيح ہے امير المومنين سے متواتر ہے اور رسول سے بھي متواتر ہے، لوگوں کي ايک کثير تعداد نے ايک جم غفير سے اس کي روايت کي ہے ۔

ٍ        ابن حجر Ù…Ú©ÙŠ Ù†Û’ صواعق محرقہ ص Û±Û·Û·ØŒ کہا ہے کہ تيس صحابيوں Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ رسول سے نقل کياہے اور بہت سارے طرق سے يہ صحيح Ùˆ حسن ہے۔

راست سے بھٹکنے سے بچاسکے اور گمراہي کي تاريکيوں سے باہر نکال سکے، نبي کے بارے ميں ايسا تصور کرنا بھي گناہ ہے کيونکہ قرآن کا اعلان ہے کہ: <عَزِيزٌ عَلَيہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيکُمْ بِالْمُوٴمِنِينَ رَؤُوفٌ رَحِيمٌ>[38] اس پر ہماري ہر مصيبت شاق ہوتي ہے وہ تمہارے ہدايت کے بارے ميں حرص رکھتا ہے اور مومنين کے حال پر شفيق و مہربان ہے۔

ايسي صورت ميں رسول کا حضرت علي  Ú©Ùˆ منتخب کرنا يقيناً ارادہٴ خداوندي Ú©Û’ تحت تھا، جس طرح سے خدا کا انتخاب حضرت طالوت Ú©Û’ بارے ميں تھا کيونکہ وہ علم Ùˆ جسم دونوں ميں نابغہٴ روزگار تھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 next