حقيقت شيعه



اور حکومت اسلامي کے سياسي، اقتصادي اور عسکري امور کي وہ سربراہي کرتا ہے لہٰذا دين اسلام سياست عامہ اور حکومت اسلامي سے جدا نہيں ہے جو بھي رسول کا خليفہ ہے اس کے لئے ضروري ہے کہ وہ اسي راہ پر گامزن ہو۔

اور ظاہر سي بات ہے کہ امت کے تمام افراد ميں اس عظيم ذمہ داري کے لئے حسب ضرورت شرطيں نہيں پائي جاتيں لہٰذا ضروري ہے کہ کسي ايک فرد ميں جو کہ خليفہ کے عہدے پر فائز ہو تمام صفات حميدہ اور کمالا حسنہ پائے جاتے ہوں تاکہ امور کي انجام دہي، شريعت کي حفاظت، اور حکومت کي پشت پناہي، ان تمام خطرات سے کرسکے جس کا امکان کسي بھي رخ سے پايا جاتا ہے۔

اگر عصري تقاضوں کے تحت بعض دنيوي حکومت ميں تبديلي اوراجتہاد کا امکان پايا جائے تو دوسرے رخ سے مسائل شرعيہ ميں اس طرح کا اجتہاد جو توہين اور سبکي کي جانب لے جائے اور ايک کے بعد دوسرے ميں مداخلت کي سبب بنے، بالکل روا نہيں ہے۔

جب ديني مرجعيت ايسي آندھيوں کے سامنے آجائے گي تو آنے والے دنوں ميں کوئي اس پر بھروسہ نہيں کرے گا اور شريعت ميں تحريف کا ايسا رخنہ پيدا ہوجائے گا جو پُر نہيں ہوسکتا، نيز آنے والے دنوں ميں شريعت پر بہت بڑا دھچکا لگے گا، اور حقيقت کي تشخيص و تعيين ميں بہت سے لوگ پھسل جائيں گے، لہٰذا يہ کہنا پڑے گا کہ ديني مرجعيت کے شرطوں ميں سے ايک يہ ہے کہ جو اس مرجعيت کو ان انجانے خطرات سے نہ بچاسکے وہ بالکل اس عہدے کا اہل نہيں ہوسکتا۔

انھيں کے پيش نظر ہم کو اس بات کي اہميت معلوم ہوتي ہے کہ پيغمبر نے اس (خلافت) کے حدود و خطوط معين فرماديئے تھے، اور عہدہ داروں کي شرطوں کو بيان کر ديا تھا، اور فرد، يا افراد کي تعيين اپنے سامنے کردي تھي، يا يہ عظيم ذمہ داري امت کے کندھوں پر ڈال دي تھي تاکہ جس کو چاہيں معين کرليں اور اصلح (نيک) کو مصلحت و تقاضوں کے تحت اس ديني مرجعيت کے لئے چن ليں؟

رہبري کے عمومي شرائط

شريعت کي حفاظت کے لئے ديني رہبري کي اہميت بيان کرنے کے بعد ضروري ہے کہ رہبري کے شرائط بھي پيش کرديئے جائيں اور جو شخص اس کا مدعي ہے اس کے لئے لازم ہے کہ ان شرائط کا حامل ہو، اور اس کي تعيين کے لئے نص يا نصوص نبوي کي تلاش ضروري ہے تاکہ اس مسئلہ پر کسي قسم کا اختلاف يا تشتت نہ ہو جس کے سبب امت کے نظريات ٹکڑوں ميں بٹ جائيں اور ايسا رخنہ پيدا ہو کہ جس سے شريعت نے منع کيا ہے۔

اہليت، عمومي مرجعيت کي برترين شرط ہے

جب ہم اسلام کي تاريخ و سير کا مطالعہ کرتے ہيں تو ہم کو وہ نصوص ملتي ہيں کہ جن ميں اس شخص کي جانب رسول نے اشارہ کيا ہے جس ميں يہ تمام شرطيں بدرجہٴ اتم پائي جاتي ہيں۔

محدثين نے لکھا ہے کہ رسول جب آخري حج سے واپس ہو رہے تھے تو جحفہ نامي جگہ جس کو غدير خم بھي کہتے ہيں اجلال نزول فرمايا اور وہاں موجود بڑے بڑے درختوں کے نيچے سے خس و خاشاک جمع کرنے کا حکم ديا تو لوگوں نے اس پر عمل کيا پھر آپ کے لئے اونٹوں کے کجاوے کا منبر بنايا گيا آپ اس پر تشريف لے گئے تاکہ سب لوگ آپ کو صحيح طريقہ سے ديکھ سکيں، اس وقت آپ نے فرمايا:

”مجھے (خدا کي جانب) طلب کيا گيا ہے ميں نے قبول کيا ہے ميں تمہارے درميان دو گرانقدر چيزيں چھوڑ کر جارہا ہوں اس ميں سے ايک دوسرے سے بڑي ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 next