حقيقت شيعه



عمر نے کہا: ابن عباس تمہارے حوالے سے کچھ بات مجھ تک پہنچي ہے جس کو ميں بيان نہيں کرنا چاہتا کيوں کہ تم ميري نگاہوں ميں گر جاؤ گے!

ابن عباس نے کہا: امير کہيے کيا بات ہے اگر باطل ہے تو ميري مثال اس شخص کي سي ہے جس نے اپنے آپ سے باطل کو جدا کرديا اوراگر حق ہے تو آپ کي نظروں سے گرنے کا سوال ہي نہيں پيدا ہوتا۔

عمر نے کہا کہ ميں نے سنا ہے کہ تم مستقل يہ کہتے پھر رہے ہو کہ يہ امر (خلافت) حسد اور ظلم کي بناء پر تم (بني ہاشم) سے چھين ليا گيا ہے۔

ابن عباس Ù†Û’ کہا: اے امير! آپ کا حسد Ú©Û’ متعلق کہنا تو درست ہے اس لئے ابليس Ù†Û’ آدم  سے حسد کيا تھا جس Ú©ÙŠ بناء پر وہ جنت سے نکال ديا گيا تھا لہٰذا ہم فرزندان آدم محسود (جس سے حسد کيا جاتا ہے) ہيں!

رہي آپ کي ظلم والي بات، تو امير بہتر جانتے ہيں کہ اصلي حقدار کون ہے؟

اس کے بعد کہا کہ اے امير! کيا عرب، عجم پر رسول کے سبب فخر نہيں کرتے؟ اور قريش سارے عرب پر رسول کي بناء پر ناز نہيں کرتے اور ہم سارے قريش کے بنسبت رسول سے زيادہ قريب ہيں۔

عمر نے کہا: اٹھو اور يہاں سے اپنے گھر جاؤ۔

عبد اللہ اٹھے گھر کي طرف چل ديئے اور جب واپس ہوئے تو عمر نے آواز دي، ابن عباس! ميں تيرے بنسبت زيادہ حقدار ہوں۔

عبد اللہ، عمر کي جانب مڑے اور کہا کہ اے امير! ہم تم سے اور پوري امت مسلمہ سے زيادہ رسول کي وجہ سے حقدار ہيں جس نے اس کي حفاظت کي گويا اس نے اپنے حق کي حفاظت کي، جس نے اس کو ضائع کيا گويا اس نے اپنا حق ضائع کرديا۔[69]

اس سے بڑھ کر اس وقت قوم Ù†Û’ جس بات Ú©Ùˆ دليل بنا کر حضرت علي  سے خلافت Ú©Ùˆ جدا کرديا تھا وہ بات يہ تھي کہ حضرت علي  Ù†Û’ اسلام Ú©ÙŠ عظيم جنگوں ميں مشرکين Ú©Û’ سرداروں Ú©Ùˆ موت Ú©Û’ گھاٹ اتار ديا تھا جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بظاہر ان Ú©ÙŠ گردنوں ميں اسلام کا قلادہ پڑا تھا ليکن دلوں ميں جنگوں Ú©Û’ کينے چھپائے ہوئے تھے اور عثمان بن عفان (خليفہٴ ثالث) Ù†Û’ اس بات Ú©ÙŠ وضاحت بھي Ú©ÙŠ ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 next