بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله وسلم) کا سلوک

محمد علی چنارانی


٩۔بحار الانور،ج٧٢،ص٢٩٥،امالی صدوق ص٢٥٢

١٠۔مستدرک الوسائل،ج٢،ص٦٢٦،وسائل الشیعہ ج٥،ص١٢٦طبع قدیم

کہ انھیں مشکلات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ مستقبل میںمشکلات سے مقا بلہ کرسکیں،کیونکہ بچوں کو عملی طور پر یہ سمجھنا چاہئے کہ ہر چیز کو حاصل کرنے کے لئے کوشش و زحمت کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر کوئی بچہ مشکلات اور سختیوں سے آگاہ نہ ہو تووہ مستقبل میں زندگی کے گوناگوں مشکلات کے مقابلہ میں گھبرا جائے گا۔یہ حقیقت ہمارے ائمہ اطہار علیھم السلام کی روایات میں بھی بیان ہوئی ہے ۔

حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

ٍٍٍٍ''بہتر ہے کہ بچہ بچپنے میں زندگی میں پیش آنے والی سختیوں اور مشکلات سے دو چارہو،جوکہ حقیقت میںزندگی کا کفارہ ہے،تاکہ جوانی اور بوڑھاپے میں صبروبرد باری سے کام لے ۔(١١)''

یہ یاد دہانی کرا دینا ضروری ہے کہ،بچوں کو مشکلات سے آشناکرنا بچے کی ناراضگی کا سبب نہیں بنناچاہئے ۔یعنی بچے کے ذمہ کئے جانے والے کام اس کی توانائی اور طاقت سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں،اس لئے بچے کی طاقت و توانائی کومد نظر رکھنا ضروری ہے ۔

رسول خدا (صلی الله علیه و آله وسلم) نے اس سلسلہ میںدرج ذیل چار نکات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے:

١۔بچہ نے اپنی طاقت بھر جو کام انجام دیا ہے اسے قبول کرنا۔

٢۔جو کام بچے کی طاقت سے باہر ہو بلکہ اس کے لئے نا قا بل برداشت ہو اس کام کا اس سے مطالبہ نہ کرنا۔

٣۔بچے کوگناہ اور سر کشی پر مجبور نہ کرنا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 next