بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله وسلم) کا سلوک

محمد علی چنارانی


( پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم))

 

تربیت کی اہمیت

بچہ پیدائش کے بعداپنے خاندان سے جدا ہونے اور دوسروں کے ساتھ مشترک زندگی گزارنے تک تربیت کے دودور سے گزرتا ہے:

١۔بچپنے کا دور،یہ دورایک سال کی عمرسے سات سال تک ہوتا ہے ۔اس دور میں بچہ کے اندر براہ راست تر بیت حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ،کیونکہ وہ اس دور میں اپنی دنیا سے بے خبر ہوتا ہے ۔

٢۔سات سے چودہ سال کی عمر تک کا دور۔اس دور میں عقل تدریجاً بڑ ھتی ہے اور فکری فعالیتوں کے لئے آمادہ ہوتی ہے ۔اس دور میں انسان سیکھ سکتا ہے اور تعلیم حاصل کرسکتا ہے ۔

پہلے دور میں تربیت،براہ راست نہیں ہونی چاہئے اور ہر گز اس کو کسی چیز سے روکنے اور کسی چیز کے حکم دینے میں سختی نہیں کر نا چاہئے بلکہ بچہ اپنے ماحول سے تربیت پاتا اور ادب سیکھتا ہے اس طرح اس کے وجود میں اخلاق کی پہلی بنیاد پڑتی ہے اور وہ اپنے ماحول کے بارے میں اچھی یاد داشتیں اور مناسب طرز عمل کو اپنے ذہن میں محفوظ کرلیتا ہے ۔

دوسرے دور میں بھی بچے کو آزادنہیں چھوڑنا چاہئے اور اس کی غلطیوں سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہئے، بلکہ اس کو اس کی بے ادبیوں سے روکنا چاہئے، اسے نظم وضبط سکھانا اورحد سے زیادہ کھیل کود وغیرہ میں وقت ضائع کرنے سے روکنا چاہئے،عبادت اور نیک کاموں کی طرف اسے رغبت دلانا چاہئے ۔(١)

افسوس کہ اکثر لوگ یہ نہیں جانتے ہیں کہ اپنے بچوں کی تربیت کب سے شروع کریں ۔بعض والدین یہ تصور کرتے ہیں کہ بچو ں کی تربیت چھ سال تمام ہونے کے بعدکی جانی چاہئے اور بعض تربیت کا آغازتین سال کی عمر ہی سے کر دیتے ہیں ۔

لیکن یہ خیال غلط ہے،کیونکہ جب بچے کی عمرتین سال مکمل ہوتی ہے تو اس میں ٧٥فیصد صفات اچھے اور برے صفات پیدا ہو جاتے ہیں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 next