بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله وسلم) کا سلوک

محمد علی چنارانی


بعض ماہرین نفسیات کا یہ خیال ہے کہ بچے کی تربیت پیدائش سے ہی شروع کی جانی چاہئے،لیکن بعض دوسرے ماہرین کسی حد تک احتیاط کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بچے کی تر بیت پیدائش کے بعد دوسرے مہینے کی پہلی تاریخ سے ہی ہوناچاہئے ۔لیکن ''شکا گو''یونیور سٹی میں اس موضوع پردقیق تحقیق کرنے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:

''ایک صحیح وسالم بچے کی فکری سطح چار سال کی عمرمیں٥٠فیصد،آٹھ سال کی عمر میں٣٠ فیصد اور سترہ سال کی عمر میں٢٠ فیصد مکمل ہوتی ہے ۔لہذا ہر چار سالہ بچہ٥٠فیصد سوجھ بوجھ کی صلاحیت رکھتاہے،اسی طرح٢اور٣ سال کے درمیان

بچے میں رونماہونے والی تبدیلیاں ٨اور٩ سال کے درمیان رونما ہونے والی تبدیلیوں سے کئی گنا زیادہ اوراہم ہوتی ہیں ۔(٢)''

 

بچے کی تربیت کہاں سے شروع کریں؟

تعلیم وتربیت کو مفیدبنانے کے لئے ضروری ہے کہ آج کل کے تصور کے برخلاف مذکورہ مدت سے پہلے ہی بچے کی تربیت اس کی پیدائش کے ابتدائی ہفتوں سے ہی شروع کرنا چاہئے ،پہلے صرف جسمانی مسائل اور پھر ایک سال کی عمر سے نفسیاتی مسائل کی طرف توجہ کی جانی چاہئے ۔

یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ بچے کے لئے وقت کی اہمیت یکساں نہیں ہوتی،کیونکہ ایک سال کی عمر میں ایک دن کی مدت،تیس سال کی عمر میں ایک دن کی مدت سے کئی گنا طولانی ہوتی ہے ۔شاید یہ مدت جسمانی اور نفسیاتی حوادث کے لحاظ سے چھ گنا زیادہ ہو۔لہذا بچپن کے اس گرانقدر دور سے پھر پورا فائدہ اٹھانے میں غفلت نہیں کرنی چاہئے ۔اس بات کا قوی احتمال ہے کہ بچے کی ابتدائی چھ سال کی عمر کے دوران زندگی کے قواعد وضوابط کے نفاذ کانتیجہ یقینی ہے ۔(٣)

اسی لئے حضرت علی فرماتے ہیں:

''من لم یتعلّم فی الصّغر لم یتقدّم فی الکبر۔(٤)''

''جوبچپن میں کچھ نہ سیکھے وہ بڑا ہو کرآگے نہیں بڑھ سکتا ۔''



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 next