حضرت علی علیہ السلام کے مختصر فضائل و مناقب



اَوْ تُدْبِرُوْا نُفَارِقْ

فِرَاقَ غَیْرِ وَامِقْ

”اگرتم آگے بڑھوگے تو ھم تم کو گلے لگا لیں گے اور تمھارے لئے بہترین بستر بچھا ئیں گے اور اگر پیچھے ہٹوگے تو ھمیشہ کے لئے تم سے جدا ھوجا ئیں گے “ ۔

مشرکین کے لشکر کی تعداد تین ہزار تھی اور مسلمانوں کے لشکر میں صرف سات سو آدمی تھے ، مشرکین کے لشکر کی قیادت طلحہ بن ابی طلحہ کررھاتھا جس کے ھاتھوں میں پرچم تھا اور وہ یہ نعرہ لگا رھا تھا : اے محمد کے اصحاب تم یہ گمان کر تے ھو کہ اللہ ھم کو تمھاری تلواروں کے ذریعہ بہت جلد جھنم میں بھیج دے گا ،اور تمھیں ھماری تلواروں کے ذریعہ بہت جلد جنت میں بھیج دے گا ،اب تم میں مجھ سے کون لڑے گا ؟

اسلام کے بھادر امام(علیه السلام) نے اس کا مقابلہ کرنے کےلئے پھل کی اور ایسی تلوار ماری کہ اس کے دونوں پیرکٹ گئے جس سے وہ زمین پر گر کر اپنے ھی خون میں لوٹنے لگا ۔۔۔

امام(علیه السلام) نے اُسے اسی کی حالت پر چھوڑدیا،اس کے ٹکڑے ٹکڑے نھیں کئے یھاں تک کہ وہ کچھ دیر بعدخون نکل جانے کی وجہ سے ھلاک ھو گیا ،مسلمان اُ س کے مرنے سے اتنے ھی خوش ھو ئے جتنے مشرکین اُس کے مرنے سے محزون ھوئے اور سست پڑگئے ،اس کے پرچم کو قریش کے دوسرے افراد نے سنبھالا ،امام(علیه السلام) نے ان کا مقابلہ کیا ،اپنی تلوار سے اُن کے سروں کو کاٹ ڈالا ، معاویہ کی ماں ھند قریش کے جذبات ابھارکران کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکارھی تھی اور جب ان میں سے کو ئی پیچھے ہٹ جاتاتھا تو اس کوسرمہ اورسلائی دیکر کہتی تھی: توعورت ھے اور سرمہ لگالے ۔[92]

در حقیقت یہ بڑے Ú¾ÛŒ افسوس Ú©ÛŒ بات Ú¾Û’ کہ مسلمان شرمناک شکست اور عظیم نقصانات سے روبرو ھوئے جن Ú©ÛŒ وجہ سے اسلام کا فاتحہ پڑھا جانا قریب تھا،اس Ú©ÛŒ وجہ یہ تھی کہ لشکر اسلام Ú©ÛŒ ایک جماعت Ù†Û’ نبی Ú©ÛŒ جنگی ھدایات پر عمل نھیں کیا،رسول اسلام(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم) Ù†Û’ تیر اندازوں Ú©ÛŒ ایک جماعت Ú©Ùˆ عبداللہ بن جبیر[93] Ú©ÛŒ قیادت میں ایک پھاڑ پر تعینات کردیا تھا تاکہ وہ پیچھے سے مسلمانوں  Ú©ÛŒ حمایت کرتے رھیں اور ان Ú©Ùˆ تاکید فر ما دی تھی کہ اپنی جگہ سے نہ ھلنا ،ان Ú©Û’ تیر اندازوں Ù†Û’ اپنے تیروں سے قریش Ú©Û’ لشکر Ú©Ùˆ بہت زیادہ نقصان پھنچایاجس سے قریش اپنا مال اور اسلحہ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر بھاگ Ú©Ú¾Ú‘Û’ ھوئے اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں Ù„Ú¯ گئے جب تیر اندازوںنے یہ حالت دیکھی کہ مسلمان مال غنیمت اٹھارھے ھیں تو ان سے نہ رھا گیا اور اُن میں سے بعض افراد اپنی جگہ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر مسلمانوں Ú©Û’ ساتھ مال غنیمت اٹھانے میں مصروف Ú¾Ùˆ گئے انھوں Ù†Û’ نبی Ú©Û’ مقرر کردہ قانون Ú©ÛŒ مخالفت Ú©ÛŒ اور اپنی جگہ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ بیٹھے ،جب خالد بن ولید Ù†Û’ یہ دیکھا تو اُس Ù†Û’ پھاڑ پر باقی بیٹھے ھوئے تیر اندازوں Ú©Ùˆ قتل کرکے پیچھے سے نبی (صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ú©Û’ اصحاب پر حملہ کردیااور ان Ú©Û’ Ú©Ú†Ú¾ افراد Ú©Ùˆ قتل کر ڈالا اور مسلمانوں Ú©Û’ لشکر Ú©Û’ بڑے بڑے سرداروں کوپیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔

امام(ع)،کا نبی کی حمایت کرنا

مسلمانوں پر شکست کے بادل منڈلانے لگے وہ حیران و پریشان ھو کر بھاگ کھڑے ھوئے ، ان پر خوف طاری ھو گیا ،انھوں نے نبی کو اللہ کی دشمنوں میں گھراھوا چھوڑ دیا ،آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو کئی کاری زخم لگ گئے اورآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ایک گڑھے میں گر گئے جو ابو عامر کی سازش سے اسی مقصد کے لئے تیار کرکے مخفی کر دیا گیا تھاتاکہ مسلمان نا دانستہ طور پراس میںگر جا ئیں ،امام(ع)رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے دا ئیں طرف تھے ، آپ(علیه السلام) نے رسول کا دست مبارک پکڑا اور طلحہ بن عبداللہ نے آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اٹھایایھاں تک کہ آپ کھڑے ھوگئے [94]نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے امام(علیه السلام) سے مخاطب ھو کر فرمایا :یاعلی(علیه السلام) مافعل الناس ؟“ اے علی(علیه السلام) لوگوں نے کیا کیا ؟“۔

آپ(علیه السلام) نے بڑی رنجیدگی کے ساتھ جواب دیا :”انھوں نے عھد توڑ دیا اور پیٹھ پھرا کر بھاگ کھڑے ھوئے “۔ قریش کے کچھ افراد نے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر حملہ کیا جس کی بناپر نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا دل تنگ ھو گیا آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے علی سے فرمایا : ”اَکْفِنِیْ ھٰوُلَاءِ “،امام(علیه السلام) نے اُن پر حملہ کیا ،سفیان بن عوف کے چار بیٹوں اور اس کے گروہ کے چھ آدمیوں کو قتل کیا ،اور بہت جد و جھد کے ساتھ دشمن کی اس ٹولی کو نبی سے دور کیا،ھشام بن امیہ کے دستہ نے نبی پر حملہ کیا تو امام(علیه السلام) نے اس کو قتل کرڈالا اور اس کا گروہ بھاگ کھڑا ھوا ، ایک اور گروہ نے بشربن مالک کی قیادت میں نبی پر حملہ کیاامام(علیه السلام) نے اس کو قتل کرڈالا تو اس کا دستہ بھی بھاگ کھڑا ھوا ،اس وقت جبرئیل نے امام(علیه السلام) کے جھاد اور آپ(علیه السلام) کے محکم ھونے کے متعلق فرمایا:”علی(علیه السلام) کے اس جذبہ ایثار وقربانی اور مو اسات سے ملائکہ حیرت زدہ ھیں “نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جبرئیل سے فرمایا :’ ’علی(علیه السلام) کو کو ئی چیز نھیں رو ک سکتی کیونکہ علی(علیه السلام) مجھ سے ھیں اور میں علی(علیه السلام) سے ھوں “،اس وقت جبرئیل نے کھا :میں تم دونوں سے ھوں “۔[95]

امام(علیه السلام) بڑی طاقت و قدرت کے ساتھ نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا دفاع کر تے رھے ،آپ کو سولہ ضربیں لگیں اور ھر ضرب زمیں بوس کر دینے والی تھی ،جبرئیل [96]کے علاوہ آپ(علیه السلام) کو کو ئی سھارا دینے والا نھیں تھا ، مولائے کائنات نے راہ اسلام میں جن مصائب کا سامنا کیاان کا علم صرف خدا کو ھے “۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 next