تاریخ حضرت سليمان قرآن کی روشنی میں



 

480

كہ جس سے انسان اپنے بلند مقاصد ميں مدد ليتا ہے لہذا حضرت سليمان(ع) جيسے نبى كاايسا كرنا كوئي تعجب انگيز نہيں_(1)

داؤد اور سليمان عليہما السلام كا فيصلہ

قرآن ميں دوسرى جگہ داؤد(ع) و سليمان(ع) كى زندگى كے ايك حصہ كى طرف اشارہ ہورہا ہے_ابتداء ميں ايك فيصلہ كا ذكر ہے كہ جو حضرت داؤد(ع) اور سليمان(ع) نے كيا تھا__ايك اجمالى اشارہ كرتے ہوئے فرمايا گيا :

''اور داؤد(ع) و سليمان(ع) كو ياد كرو كہ جس وقت وہ ايك كھيت كے بارے ميں فيصلہ كررہے تھے كہ جس كو ايك قوم كى بھيڑيں رات كے وقت چرگئي تھيں،اورہم ان كے فيصلے كے شاہد تھے''_(2)

اگر چہ قرآن نے اس فيصلے كا واقعہ كاملاًسر بستہ طور پر بيان كيا ہے_اور ايك اجمالى اشارہ پر ہى اكتفا كيا ہے،اور صرف اس كے اخلاقى اور تربيتى نتيجہ پر كہ جس كى طرف ہم بعد ميں اشارہ كريں گے قناعت كى ہے،ليكن اسلامى روايات اور مفسرين كے بيانات ميں اس سلسلے ميں بہت سى بحثيں نظر آتى ہيں_

كچھ مفسرين نے يہ بيان كيا ہے كہ وہ واقعہ اس طرح تھا:كہ بھيڑوں كا ايك ريوڑرات كے وقت انگوروں كے ايك باغ ميں داخل ہوگيا اور انگوروں كى بيلوں اور انگوروں كے گچھوں كو كھا گيا اور انہيں خراب اور ضائع كرديا_


(1)مذكورہ بيان كے بارے ميں جو كچھ سطور بالا ميں كہا گيا ہے يہ بعض مفسرين سے ہم آہنگ ہے_بزرگان شيعہ ميں سے عالم نامدار و بزرگوار سيد مرتضى كے كلمات سے بھى اس تفسير كے ايك حصّے كااستفادہ كيا جاسكتا ہے_ انھوں نے اپنى كتاب''تنزيہ الانبياء''ميں بعض مفسرين اورارباب حديث كى جانب سے حضرت سليمان(ع) كى طرف دى جانے والى ناروانسبتوں كى نفى كرتے ہوئے لكھا ہے:

''كيسے ممكن ہے كہ اللہ پہلے تو اس پيغمبر كى مدح و ثناء كرے اور پھر ساتھ ہى اس كى طرف اس برے كام كى نسبت دے كہ وہ گھوڑوں سے بھى ان كا لگائو حكم پروردگار سے تھا كيونكہ اللہ ہميںبھى حكم ديتا ہے كہ گھوڑے پاليں اور دشمنوں كے خلاف جنگ كے لئے انھيں آمادہ ركھيں_لہذا كيامانع ہے كہ اللہ كا نبى بھى ايسا ہى ہو''_



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 next