تاریخ حضرت سليمان قرآن کی روشنی میں



494

جب حضرت سليمان(ع) نے اس كى پيش كش قبول كر لى تو اس نے بھى اپنى معنوى طاقت كے ذريعے ملكہ سبا كا تخت پلك جھپكنے ميں آپ(ع) كے پاس حاضركرديا اور جب سليمان(ع) نے اسے اپنے پاس موجود پايا تو خدا كا شكر اداكرتے ہوئے كہنے لگے:''يہ ميرے پروردگار كا فضل ہے ،تاكہ مجھے آزمائے كہ ميں اس كا شكر بجالاتا ہوں يا كفران نعمت كرتا ہوں''_(1)(2)


(1)سورہ نمل آيت40

(2)يہ شخص كون تھا، اسے يہ عجيب و غريب طاقت كہاں سے ملى اور علم الكتاب سے كيا مراد ہے؟اس بارے ميں مفسرين كے مختلف اقوال ہيں ليكن ظاہر يہ ہے كہ يہ شخص جناب سليمان(ع) كے مومن اور قريبى رشتہ داروں اور خاص دوستوں ميں سے تھا_

تواريخ ميں اسكا نام ''آصف بن برخيا''لكھا ہے_ وہ جناب سليمان عليہ السلام كے وزير اور بھانجے تھے_

اور ''علم كتاب''سے ان كى آسمانى كتابوں سے واقفيت مراد ہے ايسى عميق اورگہرى واقفيت جس سے ان كے لئے ممكن ہوگيا كہ وہ اس طرح كا معجزانہ كارنامہ انجام ديں بعض لوگوں كا خيال ہے كہ اس سے مراد لوح محفوظ ہے_

يعنى علم الہى كى لوح اور اس كے صرف ايك گوشے كا اس بندہ خدا كو علم حاصل تھا جس كى وجہ سے وہ ملكہ كے تخت كو''سباء''سے آنكھ جھپكنے كى دير ميں لانے پر قادر تھا_

بہت سے مفسرين اور غير مفسرين كا كہنا ہے كہ يہ مرد مومن اللہ تعالى كے اسم اعظم سے باخبر تھا_يعنى ايسا باعظمت اور بزرگ نام جس كے سامنے دنيا كى ہر چيز سرجھكائے ہوئے ہے اور وہ انسان كو بے حد و اندازہ قدرت عطا كرتا ہے_

اس نكتے كا ذكر بھى ضرورى معلوم ہوتا ہے كہ عام طور پر لوگ يہ سمجھتے ہيں كہ اسم اعظم سے مراديہ ہے كہ كسى خاص كلمہ كے زبان سے نكال دينے سے اس كے اس قدر عجيب و غريب اثرات ظاہر ہوجاتے ہيں_

ايسى بات نہيں ہے بلكہ اس سے مراد اس نام اور اس كى صفات كو اپنانا ہوتا ہے اور دل و جان سے اس پر عمل كرنا ہوتا ہے اور علم،اخلاق تقوى اور ايمان كے اعلى درجہ پر فائز ہوكر خود كو اس كا مظہر بنانا ہوتا ہے تب كہيں جاكر اس اسم اعظم كے پرتو ميں انسان كے اندر معجزانہ امور كى انجام دہى كى صلاحيت پيدا ہوتى ہے_



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 next